دھرنے والوں کیخلاف نرم رویہ پر ایس ایس پی اسلام آباد کو برطرف کرنیکی سفارش
لاہور (جواد آر اعوان/ نیشن رپورٹ) اسلام آباد کے سابق ایس ایس پی آپریشنز محمد علی نیکو کارا کی کہانی واضح طور پر یہ پیغام دے رہی ہے کہ کسی بھی پیشہ ور افسر کیلئے قانون اور آئین کی پیروی کرتے ہوئے اپنے فرائض سرانجام دینا کس قدر مشکل ہوتا ہے۔ سابق ایس ایس پی آپریشنز اسلام آباد علی نیکو کارا نے اگست میں تحریک انصاف اور عوامی تحریک کے مظاہرین پر طاقت کے بے جا استعمال کی مخالفت کرتے ہوئے 26 اگست کو وزارت داخلہ کو اپنے تحفظات سے آگاہ کیا تھا۔ ان کے خیال میں 30 ہزار سے زائد مظاہرین کیخلاف طاقت کے استعمال سے انسانی جانوں کے ضیاع کا خطرہ ہے اور ماڈل ٹاؤن جیسا کوئی سانحہ رونما ہو سکتا ہے۔ بعدازاں اس حوالے سے دیگر سکیورٹی افسروں اور خفیہ ایجنسی کے عہدیداروں نے بھی علی نیکوکارہ کی سفارشات کی تائید کی ان کے خیال میں بھی حالات کے مدنظر نیکوکارہ کا خیال درست تھا۔ نیکو کارہ کے بعد آنے والے عصمت اللہ کی جانب سے طاقت کے استعمال سے بھی اسی بات کی تائید ہوئی کہ طاقت کا استعمال صرف اشتعال انگیزی کو بڑھا رہا تھا۔ نیکو کارا آئین اور قانون کے مطابق انسانی جان کے تقدس کا خیال کرتے ہوئے مظاہرین کے خلاف کم از کم اور انتہائی ضروری طاقت کا استعمال کرنے کی پالیسی پر کاربند تھے۔ ذرائع کے مطابق انہوں نے 30 اگست کو مظاہرین پر آنسو گیس کی شیلنگ کی اجازت دی اور انہیں وزیراعظم ہاؤس جانے سے روکے رکھا۔ وہ ریاستی عمارتوں اور انسانی جانوں کو بچانے کے اپنے فرض کے درمیان اعتدال رکھنے کی پوری کوشش کر رہے تھے۔ 31 اگست کو انہوں نے طاقت کے مزید استعمال سے انکار کرتے ہوئے خود کو الگ کرنے کا کہا اور وزارت داخلہ نے انہیں اسٹیبلشمنٹ ڈویژن تعینات کر دیا۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ اس کے بعد بھی مظاہرین کیخلاف زیادہ طاقت کا استعمال نہیں کیا گیا۔ تاہم حکومت نے ان کے خلاف انکوائری شروع کرائی جس کی سربراہی آئی جی بلوچستان محمد ایملش کر رہے ہیں۔ ذرائع کے مطابق متعلقہ گواہوں سے ضروری سوال و جواب کے بغیر اور جلدی میں انکوائری مکمل کر لی گئی ہے۔ حکومت کی جانب سے سیکرٹری خارجہ اعزاز چودھری پر بھی دباؤ ہے جنہوں نے نیکوکارہ کو برطرف کرنے کی سفارش کر دی ہے۔