نوائے وقت کے ساتھ برس ہا برس
نوائے وقت کا چسکا مجھے گھر سے ملا، والد صاحب مسلم لیگ گارڈز کے سالار تھے۔جب کبھی قصورشہرجاتے تو نوائے وقت لے آتے، اخبارات کا ڈھیر مکان کے کونے میں پڑی میز پر موجود رہتا، والدصاحب اللہ کو پیارے ہو گئے، اخبارات کا یہ ڈھیر مجھے ورثے میںملا مگر 1954 میں در یائے ستلج کی طغیانی اس قیمتی ورثے کو بہا لے گئی، کچھ بھی تو نہ بچا تھا۔
میںنویں جماعت میں پہنچا تو مجھے بھی شہر جانے کی اجازت مل گئی، اب نوائے وقت لانا میرا شوق ٹھہرا، ایک طرف سے شروع کرتا اور آخری سطر تک پڑھ کر دم لیتا۔
سوچ بھی نہ سکتا تھا کہ کبھی اپنے پسندیدہ اخبار سے منسلک بھی ہوں گا، مگر اس سے پہلے میری ملاقات محترم مجید نظامی سے ہوئی، میں ہفت روزہ زندگی کی ادارتی ٹیم میں شامل تھا۔ اس رسالے کے سرورق پر نظامی صاحب کی تصویر لگانا تھی، میںنے الطاف حسن قریشی صاحب سے کہا کہ میں نظامی صاحب سے جا کر تصویر لاتا ہوں، یوں مجھے اپنے مرشد کی خدمت میں حاضری کا شرف ملا، وہ پرانی انارکلی کی ایک بلڈنگ میںندائے ملت کے دفتر میں تشریف رکھتے تھے، انہوںنے مسکرا کر استقبال کیا،جتنی دیرمیں کوئی صاحب اندر سے ان کی تصویر لے کر آئے ، میں ان کے سامنے بیٹھا انہیں دیکھتا رہا، دیکھتا رہا۔ یہ میری آسائش کا پہلا لمحہ تھا۔
لاہور میں اردو صحافت میںمقابلہ بازی کا رجحان پیدا ہوا تو نوا ئے و قت نے نئے لوگوں کے لئے دروازے کھولے۔میںنے میگزین ایڈیٹر کے طور پر اخبار میں شمولیت اختیار کی ۔ مجھ سے پہلے محمود شام صاحب بھی یہ فرائض نبھا چکے تھے اور عبدا لقادر حسن بھی، مگر اب بات ہی اور تھی، ہرروز ایک کلر ایڈیشن اور وہ بھی پورے چار صفحات کا ، اوپر سے پرانے طرز کے کلر کیمرے اور ہاتھ سے ساری پروسیسنگ، کاپی پیسٹنگ بھی ہاتھ سے اور ابھی کتابت کا کام بھی ہاتھ ا ور قلم سے ۔دن رات کام ، کام اور کام، قائد اعظم نے جو فرمایا تھا، کچھ اس سے بھی زیادہ کام۔
چند برس بعد اخبار کے ڈپٹی ایڈیٹر بشیر احمد ارشد صاحب میرے پاس آئے، ان کا جسم تپ رہا تھا اور ماتھا پسینے سے شرابور ، کہنے لگے، کاکا! ایک روز میری جگہ ڈیوٹی دے دیا کرو تو میں ویکلی چھٹی کر کے آرام کر لوں، میںنے بلا سوچے سمجھے ہاں کر لی، مجھے اندازہ ہی نہ تھا کہ کس بوجھ تلے گردن دے رہا ہوں۔مگر ارشد صاحب ہفتہ عشرہ بعد اللہ کو پیارے ہو گئے، میں ان کے جنازے میں شامل ہوا، محترم مجید نظامی صاحب بھی وہاں موجود تھے اور میںنہیں جانتا تھا کہ ان کے ذہن نے مستقبل کے بارے میں کیا فیصلہ کیا ہے مگر جب انہوںنے فرمایا کہ جلدی دفتر پہنچو تو میں سمجھ گیا کہ میری پٹری بدل گئی ہے۔میری زندگی کی یہ دوسری آسائش تھی ا ور اس کی وجہ صرف یہ تھی کہ میں ایک زمانے کے مسلمہ استاد کی قربت میں بہت کچھ سیکھ سکوں گا۔اور اگلے دس گیارہ برس تک میں اس انسان کے اس قدر قریب رہا کہ اپنی خوش بختی پہ جتنا بھی ناز کروں، کم ہے۔
نوائے وقت کے ساتھ گزارنے والا یہ عشرہ ملکی تاریخ کا بد نصیب دور تھا۔ملک پر مارشل لا مسلط تھا، ایک فنکشن میں جنرل ضیا الحق بھی آئے ہوئے تھے،انہوں نے اپنی تقریر میں کہا کہ یہاں کچھ لوگوںکے دماغ میں جمہوریت کا کیڑا ہے، تقریر ختم ہوئی، محترم نظامی صاحب آگے بڑھے اور اپنے سر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولے کہ یہ کیڑا اس ذہن میںبھی موجود ہے، واپڈا اڈیٹورم میں سناٹا طاری ہو گیا۔ یہی کچھ جنرل مشرف کے ساتھ پیش آیا، وہ نائن الیون کے بعد ایڈیٹرز کو ایک بریفنگ دے رہے تھے، ان کی گفتگو سے سبھی نے محسوس کیا کہ حکومت نے کشمیر پالیسی تبدیل کر لی ہے۔ محترم مجید نظامی صاحب سے نہ رہا گیا، وہ دو تین فٹ کے فاصلے پر مشرف کے بائیںہاتھ تشریف فرما تھے، انہوںنے انگلی ہوا میں لہرائی ا ور جذباتی انداز میں بولے ، اگر آپ کشمیر سے غداری کریں گے تو اس کرسی پر نہیں رہ سکیں گے۔
یہ تھی میری تربیت گاہ۔ یہی مشرف ایک اور بریفنگ میں آئے ، اس مرتبہ وہ نیشنل سیکورٹی کونسل کے ڈھانچے پر مشورہ کرنا چاہتے تھے۔اس بار بھی سبھی کی رائے تھی کہ آپ بطور صدر اس کونسل کے سربراہ ہوں گے، پھر آپ جائنٹ چیئرمین بھی ہیں، آرمی چیف بھی ہیں، ایک ایئر چیف ہوں گے اور ایک نیول چیف، صرف آپ کے ووٹ چھ ہو گئے تو ہمیشہ آپ کی چلے گی، مشرف نے جواب دیا کہ دوسری افواج کے سربراہ میرے لیلے تو نہیں کہ مجھے لازمی ووٹ دیں گے، میں نے جھٹ کہا، جناب صدر ! اپنی زبان کا خیال کیجئے( میںنے انگریزی بولی تھی کہ مائنڈ یو رلینگوئیج پلیز) ہمارے بھائی مجیب شامی نظامت کے فرائض ادا کر رہے تھے، انہوں نے سوچا کہ میںشاید صدر کی توہین کامرتکب ہوا ہوں، تاہم معاملہ فہمی سے کام لیتے ہوئے ،جو کہ ان کی خصوصیت ہے، شامی صاحب نے کہا کہ سوال جواب آخر میں ہوں گے، میںنے تنک کر کہا ، مسئلہ سوال جواب کا نہیں بنیادی طور پر اس طرز تکلم کا ہے جو صدر صاحب ا ستعمال فرما رہے ہیں، اس سے پہلے کہ شامی صاحب پھر مداخلت کرتے ، مشرف نے کہا ، ہاں ہاںمیں سمجھ گیا، ان کا اعتراض جائز ہے میںنے روا روی میں بات کر دی تھی ۔ سو مکتب نظامی سے فیضیاب ہونے والامیرے جیسا ادنی شخص بھی کلمہ حق سے گریز نہیںکرتا۔ اور آج تک اسی کی سزا بھی بھگت رہا ہوں مگر مجھے اپنے یاد کئے ہوئے سبق اور اس پر عمل پیرا ہونے پر کوئی شرمندگی نہیں ہے، محترم نظامی صاحب اس دور کے مجدد الف ثانی تھے جو بڑے سے بڑے باجبروت حکمران کے سامنے بھی ڈٹ جاتے تھے۔
نوائے وقت نے اپنی ادارتی پالیسی میں کبھی جمہوریت کا ساتھ نہیں چھوڑا، ایک عشرے تک نظامی صاحب کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیا تو میںنے ان سے یہی سبق سیکھا تھا۔ جنرل اسلم بیگ ہوں یا جنرل کاکڑ، جنرل آصف نواز کی باری آئی اور پھر جہانگیر کرامت، کسی کی غیر جمہوری روش کو نوائے وقت نے برداشت نہیں کیا۔جنرل مشرف مارشل لا نافذ کر کے پہلی مرتبہ لاہور میں پریس بریفنگ کے لئے آئے تو انہوںنے اپنی طویل رام کہانی سنا کر کہا کہ مجھے تو اس میں دھکیلا گیا، نظامی صاحب نے ٹوکا کہ آخر آپ کو دھکا کس نے دیا، مشرف نے پھرتی سے جواب دیا کہ میں بھی یہی سوچ رہا ہوں کہ مجھے دھکا کس نے دیا۔ اسی مشرف سے میں ان کے اقتدار کے آخری ایام میں ملٹری ہاﺅس میں ملا، یہ ملاقات ون ٹو ون تھی، محترم نظامی صاحب کے ذکر پر اس نے کانوں کو ہاتھ لگائے ا ور کہا کہ میں ان سے ملنے سے گریز کرتا ہوں۔ میں نے واپس آکر نظامی صاحب کو یہ بات بتائی، انہوں نے فرمایا وہ مجھ سے ملنے سے گریز کرتے ہیں، میں ان سے ملنا گوارا نہیں کرتا۔
اخبار کے ساتھ ا س طویل وابستگی اور رفاقت کا یہ دور ملکی تاریخ کا انتہائی پر آشوب دور تھا۔ اس دور کی جو تصویر میں نے محترم مجید نظامی صاحب کی قربت میں دیکھی، اس کے ذکر کے لئے افسانہ آزاد کی کئی جلدیں درکار ہیں۔ میں یہ تاریخ لکھنا نہیں چاہتا کہ اس کا اختتامی باب سیاستدانوں کے محسن کش رویئے پر مبنی ہے، یہ تفصیلات بڑی کربناک ہیں۔ اورمیرے اپنے لئے بھی اذیت ناک ۔ مگر میں نوائے وقت کی پلاٹینم جوبلی کی خوشیوںکے لمحات کو پراگندہ نہیں کرنا چاہتا۔
پچھتر برس تک نوائے وقت کی رفاقتوں کا سہرا پہننے والوں کو مبارکباد!!