کابل میں تشدد سے خاتون کی ہلاکت پر سینکڑوں افراد کا مظاہرہ
کابل (بی بی سی) افغانستان کے دارالحکومت کابل میں قرآن کی بے حرمتی کے الزام میں ہجوم کے ہاتھوں خاتون کی ہلاکت کے خلاف سینکڑوں افراد نے احتجاجی مظاہرہ کیا ہے۔ فرخندہ نامی خاتون کو ہجوم نے ڈنڈے اور پتھر مار کر قتل کرنے کے بعد اس کی لاش کو گاڑی سے باندھ کر گھسیٹا اور بعد میں جلا دیا تھا۔ مظاہرین نے انصاف کا مطالبہ کیا اور ایک یادگاری پودہ بھی لگایا۔ فرخندہ کے خاندان کے مطابق پولیس نے فرخندہ کو بچانے کے لیے کچھ نہیں کیا۔ فرخندہ کے والد کا کہنا ہے کہ جب انھیں مارا جارہا تھا تو پولیس ایک جانب کھڑی رہی۔ گذشتہ ہفتے پیش آنے والے اس واقعے کے بعد 13 پولیس اہلکاروں کو ان الزامات کے بعد معطل کر دیا گیا تھا کہ انھوں نے اس خاتون کو بچانے کی بالکل کوشش نہیں کی تھی۔ عینی شاہدین کا کہنا تھا کہ ہجوم نے ان خاتون پر قرآن جلانے کا الزام لگایا تھا تاہم تفتیشی اہلکار کا کہنا ہے کہ اس بارے میں کوئی ثبوت نہیں مل سکے۔ افغان وزارتِ داخلہ کے اعلی اہلکار جنرل محمد ظاہر نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ ’گذشتہ رات میں نے تمام دستاویز اور ثبوتوں کا دوبارہ جائزہ لیا ہے ایسا کوئی ثبوت نہیں ملا جس سے ثابت ہو کہ فرخندہ نے قرآن جلایا تھا ‘۔ ان کا کہنا تھا کہ ’فرخندہ بالکل بے گناہ تھی۔‘ اس سے پہلے دعویٰ کیا گیا تھا کہ فرخندہ کا دماغی توازن درست نہیں تھا لیکن اس کے بھائی نے خبر رساں ادارے روائٹرز سے بات کرتے ہوئے اس دعوے کی تردید کی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کی بہن مذہبی استانی بننے کی تربیت حاصل کر رہیں تھیں۔ فرخندہ کے بھائی کا مزید کہنا تھا کہ ان کی موت کی خبر سننے کے بعد باقی خاندان کی حفاظت کے پیشِ نظر ان کے والد نے فرخندہ کو ذہنی مریض قرار دیا تھا۔