سازش اور عزائم پروپیگنڈا اور ایجنڈا
جن لوگوں نے شفقت کو نابالغ قرار دے کے اس کی سزائے موت معاف کرانے کی کوشش کی تو یہ ایک سازش لگتی ہے۔ یہ سیاسی سماجی اور سول مافیا کیا ہے۔ یہ اب معافیہ بننے کی کوشش میں ہے۔ اب سیاست اور سازش میں فرق مٹ گیا ہے۔ اس میں سیاسی لوگ بھی ہیں اور سول سوسائٹی کی خواتین بھی ہیں۔
میڈیا کے جن چینلز نے شفقت کو کم عمر کہہ کر شفقت کی انتہا کر دی کہ اسے پھانسی نہ دی جائے۔ کہا گیا کہ جب اس نے بچے کو قتل کیا اس سے پہلے زیادتی بھی کی۔ یہ اغوا برائے تاوان کی واردات تھی تو لوگ کس طرح کا تعاون کر رہے ہیں۔ اس کی عمر 14 سال تھی۔ پھر انہی چینلز نے شفقت کی وہ تصویر بھی دکھا دی جن میں وہ کم از کم 40 برس سے زیادہ کا لگتا ہے۔ کم از کم یہ تو کیا ہوتا کہ شفقت کی داڑھی والی تصویر شائع نہ کی جاتی۔ اس طرح اس کی عمر کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔
یہاں ایک بات ذہن میں کھلبلی مچاتی ہے کہ اگر شفقت کی عمر بچے کو زیادتی کا نشانہ بنا کر ’’سزائے موت‘‘ دینے کے وقت 14 سال تھی تو وہ بچہ جو قتل کیا گیا اس کی عمر کیا تھی؟ چند برس کا بچہ بہرحال قاتل ’’بچے‘‘ سے چھوٹا تھا۔ اس کے لئے تو کسی این جی او میڈیا سوسائٹی اور سیاسی مافیہ کے دل میں کوئی رحم نہ جاگا۔ یہ لوگ قاتل کے ساتھ ہیں۔ مقتول کے ساتھ نہیں ہیں۔ ظالم کے ساتھ ہیں۔ مظلوم کے ساتھ نہیں ہیں۔ جس شخص نے اپنی بیوی کے ہی آنچل سے اسے پھانسی دے دی اسے پھانسی نہ دی جائے۔ یہ ظلم ہے؟ تو پھر ظلم کیا ہے؟
میں تو کہتا ہوں بڑے دردمندانہ دل سے کہ ان ظالموں قاتلوں کو سزائے موت نہ دی جائے انہیں زندہ چوراہوں پر لٹکایا جائے۔ انہیں زندہ رکھا جائے۔ یہ موت کی آرزو کریں مگر انہیں موت نہ آئے۔ سزائے موت کوئی سزا نہیں ہے۔ موت تو مجھے بھی آئے گی۔ ہر کسی کو آئے گی۔ جس نے کسی کو موت نہیں دی اسے بھی آئے گی۔ سزائے موت فارن فنڈڈ این جی اوز اور مافیا بلکہ معافیا اور سازشی لوگوں کے مطابق سزائے موت ختم کر دینی چاہئے۔ یہ ’’مطالبہ‘‘ تسلیم کر لیا جائے تاکہ وہ فنڈ دینے والے ملکوں کے سامنے سرخرو ہو جائیں۔ اس طرح یورپی یونین بھی راضی ہو جائے گی اور اقوام متحدہ کے بے اختیار سیکرٹری بھی خوش ہو جائیں گے۔ کسی دن سعودی حکومت ان سب لوگوں کو بلا کے ان کے سامنے قاتلوں، ظالموں اور مجرموں کے سر سرعام کاٹ دے۔ تاکہ وہ سوچیں کہ صرف پاکستان کے لئے ان کی یہ مداخلت اندرونی معاملات میں مداخلت ہے۔
حکومت مبارکباد کی مستحق ہے کہ وہ ثابت قدم ہے۔ اسے عسکری قیادت کا تعاون بھی حاصل ہے۔ جنرل راحیل شریف کے کہنے پر نواز شریف نے سزائے موت پر پابندی ہٹائی تھی۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ اس موقع پر جب حالات بہت نازک ہیں شفقت کی پھانسی رکوانے کی جھوٹی اور مصنوعی کارروائی کیوں شروع کی گئی ہے۔ ان لوگوں سے تفتیش کی جائے اور تحقیقات کی جائے اور اس کے پیچھے چھپی ہوئی سازش کو بے نقاب کیا جائے۔
عزیز بلوچ کو دبئی سے پاکستان لانے کا معاملہ بھی ایک معمہ بنایا جا رہا ہے۔ عزیر بلوچ نے پیپلز پارٹی کے لوگوں کے نام لئے ہیں۔ جس طرح صولت مرزا نے ایم کیو ایم کے لوگوں کے نام لئے ہیں۔ دونوں معاملات میں سیاستدان الجھنیں پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اب عزیر بلوچ کے 90 دنوں میں چند دن رہ گئے ہیں۔ اور کوشش کی جا رہی ہے کہ یہ دن گزر جائیں۔ پاکستان سے دبئی جا کے عزیر بلوچ کو لانے والے واپس آ گئے ہیں۔
ایان علی پکڑی گئی اور رحمان ملک اور ان کے بھائی خالد ملک کا نام لیا گیا تو بات ’’صدر‘‘ زرداری تک چلی گئی۔ کہتے ہیں کہ ایان علی عزیر بلوچ کی رہائی کے لئے ان کے وکیل تک اس بار کچھ ڈالر لے کے جا رہی تھی۔ اس سے پہلے وہ ڈالر کس کے لئے لے جاتی رہی ہے؟ اگر سچی طرح ایان علی سے تفتیش ہو تو بڑے بڑے نام سامنے آئیں گے۔ میں اسے پردہ نشینوں کے نام نہیں کہتا کہ ان لوگوں کے لئے سیاسی اثرورسوخ ہی پردے کا کام دیتا ہے۔ رحمان ملک تک کوئی ہاتھ نہیں بڑھا مگر انہوں نے کہہ دیا ہے کہ ’’مجھے پھنسانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔‘‘ ایم کیو ایم کے لوگ بھی یہی کہتے ہیں تو پیپلز پارٹی میں زرداری کے بندوں اور ایم کیو ایم میں الطاف حسین کے بندوں میں کیا فرق ہے؟ رحمان ملک پیپلز پارٹی کے زرداری گروپ میں الطاف حسین کے آدمی سمجھے جاتے ہیں۔ ’’صدر‘‘ زرداری اور ’’قائد تحریک‘‘ الطاف حسین رحمان ملک کو اپنی مشترکہ جاگیر سمجھتے ہیں۔
کچھ لوگ سابق وزیر داخلہ اور وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان میں موازنہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ نواز شریف حکومت میں چودھری صاحب ایک نعمت ہیں۔ اس حکومت کی عزت افزائی اور کچھ نہ کچھ کامیابی ان کی وجہ سے ہے۔ اور یہ عام لوگ دل سے اقرار کرتے ہیں جبکہ نعمت رحمن ملک بھی ’’صدر‘‘ زرداری کی حکومت میں تھے۔ اور یہ بات صرف ’’صدر‘‘ زرداری اپنے دل میں محفوظ رکھتے تھے۔ موجودہ حالات میں پاکستان میں چودھری نثار علی خان کے بیانات اور اقدامات بہت اطمینان اور حوصلہ کا موجب بن رہے ہیں۔ وہ بہت دلیری اور ثابت قدمی سے بات کرتے ہیں۔ ان کے لہجے میں پاکستان کے ساتھ کمٹمنٹ صاف جھلکتی ہے۔ سیاسی قیادت کے مسائل بھی جانتے ہیں اور عسکری قیادت کے عزائم سے بھی واقف ہیں۔
اب ایان علی کو سندھ حکومت کے حوالے کرنے کے لئے بات چلائی جا رہی ہے۔ اس بات میں کس ارادے کا اشارہ ملتا ہے۔ کچھ خوف زدگی کا تاثر بھی نظر آتا ہے۔ ’’صدر‘‘ زرداری کی سیاست ابھی تک رنگ دکھا رہی ہے۔ ایوان صدر اور بلاول ہائوس میں ابھی تک کچھ مماثلت کی جاتی ہے۔ ایسے میں یہ خبر بھی کسی آوارہ پرندے کی طرح اڑائی جا رہی ہے کہ نائن زیرو کے بعد بلاول ہائوس پر بھی چھاپہ پڑنے والا ہے۔ جبکہ اس کے کوئی آثار نہیں تو یہ کیا دھول اڑائی جا رہی ہے۔ مگر جو ایجنڈا دہشت گردی اور معاشی دہشت گردی ختم کرنے کے لئے ہے اس میں اب کوئی تبدیلی نہیں ہو گی۔