عدالت میں تلخ کلامی، سابق اٹارنی جنرل عرفان قادر کا لائسنس معطل ، شوکاز جاری
اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت) سپریم کورٹ میں سندھ حکومت و پولیس کی جانب سے سربیا سے ایک ارب 32کروڑ روپے کی بکتربند گاڑیوں اور اسلحہ کی خریداری سے متعلق کیس کی سماعت میں بنچ کے سربراہ جسٹس جواد ایس خواجہ اور آئی جی سندھ پولیس کے وکیل عرفان قادر کے درمیان پھر جھگڑا، تلخ جملوں کا تبادلہ ہوا، عدالت نے عرفان قادر کا وکالت کا لائسنس معطل کرتے ہوئے شوکاز نوٹس جاری کردیا۔ عدالت نے سندھ حکومت اور عرفان قادر سے وضاحت طلب کی ہے کہ وہ بتائیں کہ بغیر وکالت نامے کے کس طرح عدالت میں پیش ہوتے رہے، سندھ پولیس نے پرائیویٹ وکیل کیا تو اس کی فیس کہاں سے دی جارہی ہے؟ اگر عدالت وضاحت سے مطمئن نہ ہوئی تو ان کی وکالت کا لائسنس منسوخ کردیا جائے گا،کیس کی مزید سماعت 2 اپریل تک ملتوی کردی گئی، جسٹس جواد نے وکیل عرفان قادر پر برہمی کا اظہار کرتے کہا آپ کو عدالت پر دبائو ڈالنے کے لئے جان بوجھ کر مقرر کیا گیا پہلے دن سے اپ کا رویہ مناسب نہیں، عرفان قادر نے کہا پہلے دن سے عدالت کا رویہ تلخ ہے میں نے پہلے دن کہا تھا کہ کیس کے ٹیکنیکل سوالات فریم کئے جائیں جن کا میں پوائنٹس وائز جواب دوں گا مگر عدالت نے کیس ایک طرف رکھتے ہوئے ذاتیات کو نشانہ بنایا جس بنچ میں جسٹس جواد ہوں گے وہاں انصاف کی امید نہیں آپ مجھ سے ذاتی عناد رکھتے ہیں میڈیا میں یہ باتیں آنی چاہئیں کہ عدالتوں میں کیا ہو رہا ہے آپ نے میرے خلاف ارسلان افتخار سے متعلق توہین عدالت کا 2012ء کا کیس نکال کر آج لگا دیا ہے ، میں 25 سال سے وکالت کررہا ہوں کسی اے او آر کی جرأت نہیں کہ وہ مجھ سے وکالت نامہ طلب کرے ، ایک جسٹس اور وزیراعلیٰ ایک دوسرے کے معاملات بارے نہیں پوچھ سکتے ان کی اپنی اپنی حدود ہیں وہ ایک دوسرے کو جواب دہ نہیں مگر عدالت کیس سے ہٹ کر سروس رولز اور اختیارات کے بارے میں سوالات کرہی ہے، وہ عدالت کی عزت کرتے ہیں، جسٹس جواد نے کہا کہ وہ دیکھ رہے ہیں جو عدالت کی عزت کی جا رہی ہے، جسٹس اعجاز افضل نے کہا عرفان قادر آپ کوڈ آف کنڈکٹ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے حدود سے تجاوزکررہے ہیں عدالت کی کسی سے ذاتی عداوت نہیں ہوتی، عدالتوں کا احترام کریں، جسٹس جواد نے کہا کہ عدالت آپ کا لائسنس منسوخ کرے گی۔ اس موقع پر بیرسٹر اعتزاز احسن نے کہا کہ آپ اس وقت غصہ میں ہیں ایسی حالت میں کوئی آرڈر پاس نہ کریں اس سے دوررس نتائج نکلیں گے جو مستقبل کے لئے خطرناک ہوں گے غلط ریت پڑ جائیگی، دوران سماعت موجود آئی جی سندھ پولیس کی جانب سے ڈیڑھ صفحہ کا جواب جمع کروایا گیا جس کا جائزہ لینے کے بعد جسٹس جواد نے کہا کہ آپ نے عدالتی آرڈر کے مطابق جواب نہیں دیا آپ اپنا جواب پڑھیں آئی جی کی جانب سے پڑھنے میں مشکل پر عدالت نے برہمی کا اظہارکرتے ہوئے اپنی جوابی کاپی ان کو دی اور کہا کہ لگتا ہے آپ نے خود اس سے پہلے اپنا جواب نہیں پڑھا، پرائیویٹ وکیل کرنے کی کیا وجوہات تھیں تمام صوبوں کے رولز آف بزنس ایک جیسے ہیں جس میں معاہدہ کرنے کی اتھارٹی وزیر اعلیٰ ہے اگر کسی صوبائی محکمے کو کوئی چیز چاہئے تو وہ اپنی سمری صوبائی حکومت کو دیتی ہے معاہد ہ وہ ہی کرتا ہے نہ کہ وہ محکمہ خود،آئی جی نے جواب دیا عرفان قادر کو پرائیویٹ طور پر کرنے کی منظوری باقاعدہ چیف منسٹر نے دی تھی پہلے بھی ایسا ہوتا رہا عرفان قادر کی فیس کا معاملہ 30 لاکھ میں طے ہوا 20 لاکھ روپے فیس پہلے اداکردی گئی ہے، عرفان قادر نے کہا کہ عدالت نے سندھ کے وکیل پر دباؤ ڈال کر معاہدہ منسوخ کرایا، جسٹس جواد نے اس حوالے سے سندھ حکومت کے وکیل فاروق ایچ نائیک سے استفسار کیا تو انہوں نے سر ہلا کر جواب دیا کہ ایسا نہیں ہوا۔ دوران سماعت موجودہ آئی جی سندھ پولیس نے کہا کہ وہ نئے آئے ہیں جس آئی جی نے معاہد کیا وہ کوئی اور تھے اس پر عدالت نے کہا کہ آپ کو یہ پہلے بتانا چاہئے تھا عدالت تو آپ کو اس حوالے غلط معاہدہ کرنے پر سرزنش کرتی رہی آپ تو نئے آئے ہیں تو آپ کا کیا قصور؟ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا سندھ حکومت عوام کے ٹکے ٹکے کی ذمہ دار ہے، وہ اس پیسے کی امین ہے، معاہد غلط تھا اسی لئے کالعدم قرار دیا گیا سندھ حکومت آئین کے تحت چلتی ہے آئین سندھ حکومت کے تحت نہیں مستقبل کے لئے سندھ حکومت اپنے معاملات درست کرے۔ فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ ابھی ہیلی کاپڑ کا معاملہ بھی ہے جس پر عدالت نے کہا کہ وہ بعد میں دیکھیں گے پہلے ایک معاملہ حل ہو جائے، مزید سماعت 2 اپریل تک ملتوی کردی جبکہ شوکاز نوٹس پر وکیل عرفان قادر سے بھی وضاحتی جواب طلب کیا گیا ہے۔