• news

سعودی سلامتی کو درپیش خطرے کا بھرپور جواب دینگے: نواز شریف : وزیر دفاع اور مشیر خارجہ کیساتھ سینئر فوجی حکام آج ریاض جائینگے

اسلام آباد (اے پی پی + نوائے وقت رپورٹ) وزیراعظم محمد نواز شریف کی زیرصدارت بدھ کو اعلیٰ سطح کے اجلاس میں مشرق وسطیٰ میں ہونے والی حالیہ تبدیلیوں کا جائزہ لیا گیا۔ وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان کے سعودی عرب اور خلیج تعاون کونسل کے دیگر ممالک کے ساتھ انتہائی قریبی اور برادرانہ تعلقات ہیں اور پاکستان ان کی سلامتی کو بہت اہمیت دیتا ہے۔ اجلاس میں کہا گیا کہ سعودی عرب کی علاقائی سالمیت کو درپیش کسی بھی خطرے کا پاکستان کی طرف سے بھرپور جواب دیا جائے گا۔ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ (آج) 27مارچ کو صورتحال کا جائزہ لینے کے لئے وزیر دفاع اور وزیراعظم کے مشیر برائے قومی سلامتی پر مشتمل ایک وفد سعودی عرب کا دورہ کرے گا، مسلح افواج کے اعلیٰ نمائندے بھی وفد میں شامل ہوں گے۔ اجلاس میں وزیردفاع خواجہ محمد آصف، وزیراعظم کے مشیر برائے قومی سلامتی سرتاج عزیز، چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف اور پاک فضائیہ کے سربراہ ائرچیف مارشل سہیل امان نے اجلاس میں شرکت کی۔ دریں اثناء وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ وزیراعظم نواز شریف کی زیر صدارت اجلاس میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ سعودی عرب کی سلامتی کا بھرپور دفاع کریں گے۔ آج ایک اعلیٰ سطح کا وفد سعودی عرب جائے گا جس میں میرے علاوہ سرتاج عزیز، تینوں مسلح افواج کے نمائندے شامل ہیں۔ سعودی حکام کے ساتھ ملاقاتیں ہوں گی۔ سعودی عرب کی علاقائی خودمختاری متاثر نہیں ہونی چاہئے۔ پاکستان کا فرض بنتا ہے کہ وہاں حرمین شریفین ہیں سعودی عرب کے ساتھ ہمارے برادرانہ تعلقات ہیں ہر قسم کا دفاع کریں گے۔ سعودی وزیر خارجہ نے وزیراعظم کو فون پر موجودہ صورتحال سے آگاہ کیا۔ انہیں یقین دہانی کرائی گئی کہ سعودی عرب کی آزادی، خودمختاری پر کوئی بھی آنچ آئی تو پاکستان سعودی بھائیوں کے ساتھ کھڑا ہوگا۔ یہ بات درست ہے کہ ابھی تک سعودی عرب کی خودمختاری کی خلاف ورزی نہیں ہوئی اگر خدانخواستہ ہوئی تو ان کے ساتھ کھڑے ہیں۔ سات سو کے قریب فوجی پہلے سے سعودی عرب میں موجود ہیں۔ سعودی عرب نے 1999 میں مفت تیل بھی دیا تھا۔ سعودی عرب کے ساتھ ہماری کمٹمنٹ اٹل ہے ضرور نبھائیں گے، ہم کسی فرقہ وارانہ جنگ کا حصہ نہیں ہیں۔ اجلاس میں مشرق وسطیٰ کی صورت حال پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ وزیراعظم نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سعودی عرب کو درپیش سلامتی کے خطرات کا پاکستان سختی سے جواب دے گا۔ سعودی وزیر خارجہ سعود الفیصل نے نواز شریف سے فون پر یمن میں مدد کی درخواست کی تھی۔ بی بی سی کے مطابق حکومت پاکستان نے کہا ہے کہ وہ سعودی عرب کی علاقائی سالمیت کو خطرہ لاحق ہونے کی صورت میں اس کا بھرپور ساتھ دے گا۔ وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان کے سعودی عرب اور دیگر خلیجی تعاون تنظیم میں شامل ممالک کے ساتھ برادرانہ مراسم ہیں اور ان کی سلامتی کو اہمیت دیتا ہے۔ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ سعودی عرب کی علاقائی سالمیت کو خطرے پر پاکستان بھرپور ردِعمل دے گا۔ قبل ازیں دفتر خارجہ کا کہنا تھا کہ سعودی عرب نے آپریشن کے حوالے سے تعاون مانگا ہے، اس درخواست کا جائزہ لیا جارہا ہے۔ 


اسلام آباد(سہیل عبدالناصر+ جاوید صدیق+ نواز رضا) یمن کی منتخب حکومت کے خلاف بغاوت کرنے والے حوثی قبائل کی سرکوبی کیلئے پاکستان فوجی مشیر بھجوا سکتا ہے البتہ زمینی یا فضائی افواج بھجوانے کا معاملہ خارج از امکان ہے۔ مستند حکومتی ذرائع کے مطابق سردست حکومت، یمن کی تازہ ترین صورتحال، سعودی عرب کی زیر سرکردگی خلیج تعاون کونسل کی باغیوں کے خلاف کارروائی اور اس پر ردعمل کا بغور جائزہ لے رہی ہے۔ آج وزیر اعظم کے مشیر اور وزیر دفاع کے مشترکہ دورہ سعودی عرب کے بعد سعودی عرب اور خلیج تعاون کونسل کے ساتھ تعاون کی حتمی نوعیت کا فیصلہ کرے گا۔ اس ذریعہ کے مطابق پاکستان کو اس دوران اقوام متحدہ کی طرف سے بھی کارروائی کا انتظار ہے۔ قرارداد آنے کی صورت میں پاکستان عالمی ادارے کے مینڈیٹ کے تحت باغیوں کے خلاف کارروائی کرنے والی فورسز کی معاونت کر سکتا ہے۔ واضح رہے کہ پاکستان کی بری فوج اور فضائیہ دونوں نے پاک افغان سرحد کے دشوار گزار علاقوں میں جنگجوئوں کے خلاف کامیاب کارروائیاں کی ہیں ۔ شمالی وزیرستان میں آپریشن ضرب عضب،جنوبی وزیرستان میں آپریشن راہ نجات اور خیبر ایجنسی میں آپریشن خیبر ٹو جیسی بڑی فوجی کارروائیاں بری فوج اور فضائیہ کے کریڈٹ پر ہیں۔ اور یہ تجربہ یمن کے اس قبائلی اور کوہستانی علاقہ میں بروئے کار لایا جا سکتا ہے جہاں سے حوثی قبائل نے حکومت کے خلاف بغاوت شروع کی اور اب یمن کے بڑے شہروں پر قبضہ کر چکے ہیں۔ پاکستان کی زمینی یا فضائی افواج بھجوانا اس لئے خارج از امکان ہے کہ سعودی عرب کی زیر سرکردگی اتحاد کے پاس باغیوں کے خلاف کارروائی کیلئے خاطر خواہ فضائی طاقت موجود ہے ۔ اس ذریعہ کے مطابق سب سے اہم بات یہ ہے کہ اگرچہ پاکستان یمن کی منتخب حکومت کی حمائت کرتا ہے اور سعودی عرب کو لاحق خطرات کا بھی اسے ادراک ہے لیکن اس کے ساتھ ہی پاکستان کسی بھی ملک کے اندر فوجی کارروائی کا اس وقت تک حصہ نہیں بن سکتا جب تک اقوام متحدہ کے زیر اہتمام عالمی برادری اجتماعی کارروائی شروع نہیں کرتی۔ حکومت پاکستان کو پھیلائی گئی ان غلط اطلاعات پر بھی تشویش ہے جن میں کہا گیا ہے کہ پاکستان سعودی عرب کی زیر قیادت اتحاد میں شامل ہو کر باغیوں کے خلاف کارروائی میں شریک ہے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ پاکستان نے اب تک صنعاء سے اپنا سفارتخانہ عدن یا کہیں اور منتقل نہیں کیا۔ باخبر ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ پاکستان سعودی عرب کی ریاست کو لاحق خطرات کا مقابلہ کرنے کے لئے مسلح افواج کو بھجوائے گا لیکن پاکستان کی مسلح افواج کسی ملک پر حملہ نہیں کریں گی۔ جمعرات کو ساڑھے پانچ گھنٹے تک وزیر اعظم محمد نواز شریف جاری رہنے والے اعلیٰ سطح کے اجلاس میں اس بات کا فیصلہ کر لیا گیا ہے کہ پاکستان سعودی عرب کے دفاع کے لئے مطلوبہ تعداد میں عسکری قوت فراہم کرے گا‘ تاہم اجلاس میں طے پایا ہے کہ پاکستان خطے کے تنازعے میں حصہ دار نہیں بنے گا اور اپنے آپ کو اس تنازعہ سے الگ تھلگ رکھے گا۔ ذرائع کے مطابق اگر سعودی عرب پر کسی جانب سے جارحیت ہوئی یا سعودی عرب کی سرحدوں کی خلاف ورزی کی گئی تو ان کا مقابلہ پاکستان کی مسلح افواج کریں گی۔ پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان دفاعی شعبوں میں تعاون ہے۔ پاکستان کے سینکڑوں فوجی سعودی عرب میں ایڈوائزری کردار ادا کر رہے ہیں۔ پاکستانی وفد سعودی عرب کو اپنے دفاع کے لئے پاکستان میں تیار ہونے والا اسلحہ فراہم کرنے کی پیشکش کر سکتا ہے۔ قابل اعتماد ذرائع کے مطابق پاکستانی وفد ریاض جائے گا جہاں وہ سعودی حکام سے اہم امور پر تبادلہ خیال کرے گا۔ سعودی عرب کے دفاعی حکام پاکستانی وفد کو سیکیورٹی کی تازہ ترین صورت حال پر بریفنگ دیں گے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ خواجہ آصف سعودی عرب جانے سے قبل قومی اسمبلی کو بھی اعتماد میں لیں گے۔

ای پیپر-دی نیشن