• news

سعودی عرب کے دفاع کا وعدہ ہے‘ یمن کی جنگ میں شریک نہیں ہونگے: خواجہ آصف

اسلام آباد (خبرنگار خصوصی+ ایجنسیاں) وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ مسلم اُمہ کی یکجہتی کیلئے پاکستان جو کردار ادا کرسکتا ہے کریگا، کسی ایسے اختلاف کو ہوا نہیں دیں گے جس کے نتائج مسلم اُمہ کو بھگتنا پڑیں، سعودی عرب کی جغرافیائی سالمیت کو خطرہ ہوا تو ہر حالت میں انکا ساتھ دیں گے، تاہم یمن کی جنگ کا حصہ بننے کا فیصلہ کیا ہے نہ ہی مشرق وسطیٰ میں فوجی دستے بھیجنے کا فیصلہ کیا، ایسا فیصلہ نہیں کریں گے جس کے منفی اثرات پڑیں، سعودی عرب کا مکمل دفاع کریں گے، کسی فوجی اقدام سے پہلے پارلیمنٹ کو اعتماد میں لیں گے۔ قومی اسمبلی کے اجلاس میں نکتہ اعتراض پر اظہار خیال کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سعودی عرب کا دفاع کرینگے مگر جنگ میں شریک ہو کر اسے طویل نہیں کرینگے پھیلائیں گے نہیں۔ اپوزیشن کے خدشات بجا لیکن بے بنیاد ہیں، عرب لیگ کے اجلاس کا انتظار کر رہے ہیں، خدا کرے عرب لیگ اس مسئلے کا حل نکال لے، ہم ایسا کوئی فیصلہ نہیں کریں گے جس کے 5، 10 یا 20 سال بعد اثرات مرتب ہوں۔ سعودی عرب کی جغرافیائی حیثیت کو خطرہ ہوا تو پاکستان دفاع کریگا، افغانستان میں بدامنی کے براہ راست نتائج بھگتے ہیں، موجودہ صورتحال میں اتحاد اور یکجہتی کی ضرورت ہے، ملک میں جو صورتحال ہے وہ بھی ہماری نظر میں ہے۔ سعودی عرب سے جو تعلقات ہیں وہ بھی نظر میں ہیں، ہم نے سعودی عرب کے دفاع کا وعدہ کای ہے، جنگ میں شامل ہونے کا کوئی وعدہ نہیں کیا، سعودی عرب میں فوجیں بھیجنا ہوئیں تو پارلیمنٹ کو اعتماد میں لیں گے۔ یمن کے باغیوں کیخلاف سعودی عرب کے اتحاد میں شامل ہونے کا ابھی فیصلہ نہیں کیا۔ سعودی عرب اور یمن کی جنگ میں اپنے فوج بھیجنے کا کوئی فیصلہ نہیں کیا، تاہم فیصلہ کیا ہے سعودی عرب پر اگر کوئی مشکل وقت آیا تو ہم ان کے ساتھ کھڑے ہوں گے، پالیسی بیان میں خواجہ محمد آصف نے کہا کہ سعودی عرب کے ساتھ تاریخی اور مذہبی رشتہ ہے۔ عرب میں عرب لیگ کا اجلاس ہونیوالا ہے، وہاں یمن کی صورتحال کے حوالے سے فیصلہ ہوگا، یمن، شام اور عراق میں جنگ جاری ہے۔ افغانستان میں صورتحال بہتری کی طرف جارہی ہے۔ ساری مسلم اُمہ پر ابتلا کا وقت ہے، اس وقت اتحاد و یکجہتی کے قیام اور تفرقات کو ختم کرنے کی ضرورت ہے، بجائے اس کے کہ اس کا حصہ دار بن کر انہیں کو پھیلایا جائے۔ ہم نے اس حوالے سے بند یا اوپن کمرے میں کوئی فیصلہ نہیں کیا، اس حوالے سے کسی بھی قیاس آرائی کی تردید کرنے کو تیار ہیں۔ عرب لیگ یا او آئی سی میں اسکا فیصلہ ہوجائے، اسکے بعد ہم ضرور وہاں جا کر حالات معلوم کریں گے۔ افغانستان میں بدامنی کے براہ راست نتائج بھگتے ہیں، موجودہ صورتحال میں اتحاد اور یکجہتی کی ضرورت ہے، ملکی صورتحال پر ہماری نظر میں ہے۔ بی بی سی کے مطابق وزیر دفاع نے کہا کہ پاکستان نے سعودی عرب کی علاقائی سالمیت کو خطرے کی صورت میں اس کے دفاع کا وعدہ کیا ہے تاہم وہ کسی جنگ کا حصہ نہیں بن رہے۔ پاکستان کی جانب سے کیا جانے والا وعدہ اور عزم صرف سعودی عرب کی حفاظت کیلئے ہے اگر ایسی کوئی صورت حال پیدا ہوتی تو سعودی عرب کا ضرور دفاع کریں گے اور یہ ہم نے انہیں بتا دیا ہے۔ مشرق وسطیٰ اور عرب دنیا کے متعدد ممالک میں جنگ کا ماحول ہے۔ پاکستان کسی ایسے تنازعے کو ہوا نہیں دینا چاہتا جس کے اثرات مسلم دنیا پر تفرقے کی صورت میں پڑیں۔ اس (تفرقہ بازی) کی فالٹ لائنز پاکستان میں بھی موجود ہیں اور ان میں ہلچل مچانا اور پھر اس کے نتائج بھگتنا ملک کے مفاد میں نہیں۔ اس سے قبل قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید خورشید احمد شاہ نے کہا کہ سعودی عرب کی سرزمین کو کوئی خطرہ ہو کوئی بھی مسلمان برداشت نہیں کرسکتا، ہمیں عالم اسلام کے اتحاد کے لئے کردار ادا کرنا ہے۔ نکتہ اعتراض پر خورشید احمد شاہ نے کہا کہ مسلمان اور پاکستانی کی حیثیت مشرق وسطیٰ کے حوالے سے ہمارا فرض بنتا ہے کہ ہم ایوان میں بات کریں۔ مشرق وسطیٰ کی جنگ میں اگر پاکستان نے شریک ہونا ہے تو ہمارا خیال تھا کہ ایوان کو اعتماد میں لیا جائیگا۔ سعودی عرب سے ہمارا نہ ٹوٹنے والا رشتہ ہے کیونکہ اس کی بنیاد دین اور اسلام ہے، پاکستان کو یہ جلتی ہوئی آگ ختم کرنے کیلئے کردار ادا کرنا چاہئے۔ پاکستان کی قیادت کو چاہئے کہ سعودی عرب، یمن، شام سمیت تمام اسلامی ممالک میں جائیں اور عالم اسلام کو اندرونی خلفشار سے بچانے کیلئے کردار ادا کریں۔ تمام اسلامی ممالک اپنی بقا اور حضرت محمد مصطفیؐ کے دین کے تحفظ کیلئے پہلے اندرونی طور پر امن قائم کریں، آج ہم خود انتشار کا شکار ہیں، ہمیں اس جنگ میں شریک نہیں ہونا چاہئے۔ ہمیں ماضی کو سامنے رکھ کر فیصلے کرنے چاہئیں، ہم نے پارلیمنٹ کو بچانے کیلئے حکومت کا ساتھ اسلئے دیا کہ یہاں جمہوریت قائم رہے، ہمیں باہمی مشاورت سے خارجہ پالیسی کی سمت درست کرنی چاہئے، تمام فیصلے پارلیمنٹ میں ہونے چاہئیں، مشرق وسطیٰ کی جنگ میں پاکستان کو نہیں جانا چاہئے، حکومت پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس طلب کر کے یا کل جماعتی کانفرنس طلب کر کے سیاسی قیادت کو اعتماد میں لے، سعودی عرب کی سرزمین کو کوئی خطرہ ہو،کوئی بھی مسلمان یہ برداشت نہیں کرسکتا، میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ عالم اسلام میں اتحاد قائم کرے، خدا کرے کہ عرب لیگ کو بات سمجھ آجائے، مسلمانوں کی جنگ کسی کے بھی حق میں نہیں۔ پاکستان کو یمن کی جنگ میں شریک نہیں ہونا چاہئے، اگر پاکستان نے یمن کی جنگ میں شرکت کی تو یہ ہمیں جلا کر راکھ کردیگی۔ یہ بات بالکل ٹھیک ہے کہ سعودی عرب ہمارا برادر اسلامی ملک ہے اور اس کے ساتھ ہمارے دیرینہ تعلقات ہیں لیکن پاکستان کو یمن کی جنگ میں شریک نہیں ہونا چاہئے۔ یہ جنگ ہم سب کو تباہ کر دیگی، کسی کے گھر میں آگ لگائیں گے تو اپنے گھر میں آگ لگ جائیگی۔ مسلمانوں کو آپس میں لڑایا جا رہا ہے لیکن پتہ نہیں ہم کیوں خاموش رہیں۔ اس جنگ میں پاکستان کا کردار کشیدگی کو کم کرنے والا ہونا چاہیئے اسی میں ہم سب کی بہتری ہے۔ اخبار میں پڑھا کہ حکومت نے سعودی عرب کو بچانے کے لئے وہاں جانے کا فیصلہ کیا ہے۔ کوئی بھی فیصلہ کرنے سے پہلے ایوان کو اعتماد میں لیا جائے۔ سعودی عرب کے فرمانروا خانہ کعبہ کے متولی ہیں وہ لڑائی بند کرانے کے لئے اقدامات کریں۔ انوشہ رحمان نے کہا کہ ہمیں مشرق وسطی میں جاری جنگ کا حصہ نہیں بننا چاہئے۔ وفاقی وزیر سینیٹر مشاہد اللہ خان نے کہا کہ سعودی عرب عام ملک نہیں ہمارے مقدس مقامات ہیں ان کے تحفظ پر کسی بھی قسم کا سمجھوتہ نہیں ہو سکتا۔ پاکستان مقدس مقامات کے تحفظ کیلئے بھرپور کردار ادا کرے گا۔ یمن میں بگڑتی ہوئی صورتحال کے پیش نظر وزیراعظم نوازشریف نے وہاں مقیم پاکستانی خاندانوں کے فوری انخلا کی ہدایات دی ہیں۔ وزیراعظم کے دفتر میں جاری بیان کے مطابق یمن میں مقیم خاندانوں کو موجودہ صورتحال میں ریاستی نظام کے تباہ ہونے کی صورت میں اغوا سمیت ہر طرح کے جرائم کا خطرہ لاحق ہے۔ وزیراعظم نے ہدایت کی ہے کہ جنگی بنیادوں پر پاکستانی خاندانوں کی سلامتی کو یقینی بناتے ہوئے انہیں وہاں سے نکالا جائے۔رائٹر کے مطابق بمباری کے باوجود حوثی قبائل کی پیش قدمی جاری ہے اور انہوں نے جنوب اور مشرقی علاقوں میں بہت سی کامیابیاں حاصل کیں۔
صنعا+ کویٹ سٹی (اے ایف پی+ رائٹر+ عبدالشکور ابی حسن سے) یمن میں سعودی عرب اور اتحادی ممالک کی حوثی باغیوں کے خلاف کارروائیاں جاری ہیں۔ گذشتہ 24 گھنٹے کے دوران فضائی حملوں میں 39 افراد ہلاک، بیسیوں زخمی ہو گئے۔ ذرائع کے مطابق 3 فضائی حملے کئے گئے، صدارتی محل اور نواحی علاقوں کو نشانہ بنایا۔ اطلاعات کے مطابق ان حملوں کے دوران صدارتی محل کے نواح میں کم از کم 12 افراد ہلاک ہو گئے۔ ملٹری ذرائع کے مطابق اتحادی طیاروں نے سابق صدر علی عبداللہ صالح کے بیٹے احمد علی صالح کے زیر قبضہ علاقہ میں فوج کے الاستقلال کیمپ پر حملہ کیا جس میں درجنوں ہلاکتوں کی غیر مصدقہ اطلاعات ہیں۔ فضائی حملوں کے بعد دارالحکومت صنعا دھماکوں سے گونج اٹھا، حوثی باغی اینٹی ائر کرافٹ مشین گنوں سے جوابی حملے کر رہے ہیں۔ بعض اطلاعات کے مطابق باغیوں نے کچھ طیارے گرانے کا دعویٰ کیا ہے۔ یمنی وزیر خارجہ کا کہنا ہے کہ اگر ان حملوں کے مطلوبہ نتائج نکلتے ہیں اور حوثی باغیوں کی پیش قدمی رک جاتی ہے تو یہ بمباری گھنٹوں میں رک سکتی ہے۔ حوثیوں کی پیش قدمی رکتے ہی فضائی حملے روک دینے چاہئیں۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ اس بارے میں یقین سے کچھ نہیں کہہ سکتے کہ اگر فضائی حملے باغیوں کی پیش قدمی نہ روک سکے تو کیا عرب رہنما زمینی فوج یمن بھیجنے پر تیار ہونگے یا نہیں۔ سعودی عرب کا کہنا ہے کہ یمن میں حوثی باغیوں کے خلاف فضائی حملے جاری رہیں گے لیکن وہ ابھی وہاں زمینی فوج بھیجنے کا ارادہ نہیں رکھتا۔ سعودی پریس ایجنسی کے مطابق یمن میں جاری اس آپریشن کو سوڈان، مراکش، مصر اور پاکستان کی حمایت حاصل ہے۔ یمن کی خطرناک صورتحال کے باعث بھارت کے 3 ہزار 500 باشندے بھی یمن میں پھنس گئے۔ بھارتی باشندوں کو لانے کیلئے 2 بحری جہاز روانہ کر دئیے گئے ہیں۔ ملک کے جنوبی علاقوں عدن کے اردگرد جھڑپوں کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ مراکش بھی سعودی اتحاد میں شامل ہو گیا ہے۔ سعودی عرب کا کہنا ہے کہ جنوبی ائرپورٹس پر پروازیں معمول کے مطابق جاری ہو گئی ہیں۔ اطلاعات کے مطابق بمباری سے باغیوں کے اہم کمانڈروں سمیت متعدد افراد مارے گئے ہیں۔ مصر کے وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ ضرورت پڑنے پر بری، فضائی اور سمندری حدود فراہم کی جائیگی۔ اطلاعات کے مطابق عرب لیگ کے وزرائے خارجہ مشترکہ فوج کے قیام کے مسودے پر متفق ہو گئے ہیں۔ مشترکہ فوج امریکی امداد کے بغیر خطے میں سکیورٹی خطرات سے نمٹنے کے لئے قائم کی جائے گی۔ مصر میں عرب لیگ کے وزرائے خارجہ کے اجلاس کے بعد سیکرٹری جنرل نبیل العربی نے میڈیا کو بتایا کہ پہلی بار عرب ملکوں پر مشتمل فوج قائم کی جائے گی۔ انہوں نے کہا مشترکہ فوج کے قیام کا مسودہ منظوری کے لئے عرب لیگ کے آ ئندہ ہونے والے اجلاس میں پیش کیا جائے گا۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ یمن میں کارروائی کرنے والی فوج مشترکہ فوج نہیں۔ مشترکہ فوج کے قیام کے لئے مزید غور کی ضرورت ہے۔ ترجمان دفتر خارجہ تسنیم اسلم نے تصدیق کی ہے کہ مشیر خارجہ سرتاج عزیز اور وزیر دفاع خواجہ آصف کا  سعودی عرب کا دورہ مؤخر کر دیا گیا ہے۔ ذرائع کے مطابق وزیراعظم ہاؤس میں یمن کی صورتحال پر اجلاس ہو گا جس میں صنعا میں محصور پاکستانیوں کے انخلا سے متعلق حکمت عملی پر مشاورت ہو گی۔ یمن میں پاکستانیوں کی تعداد 3 ہزار کے قریب ہے۔ صنعا میں پاکستانیوں کی تعداد ایک ہزار سے کم ہے۔ دفتر خارجہ نے یمن میں فوج بھیجنے کی مخالفت کی تھی۔ واضح رہے کہ وزیر دفاع خواجہ آصف نے دورہ مؤخر کرنے کی بات کی تھی۔ دریں اثناء خادمین الحرمین الشریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز آل سعود نے یمن میں حوثی باغیوں کے خلاف کئے گئے آپریشن ’’فیصلہ کن طوفان‘‘ کے بارے میں علاقائی لیڈروں سے ٹیلی فون پر بات چیت کی ہے۔ عرب میڈیا نے سرکاری سعودی خبررساں ادارے کے حوالے سے بتایا ہے کہ شاہ سلمان نے کویت کے امیر شیخ صباح الاحمد الجابر الصباح، مصر کے صدر عبدالفتاح السیسی، اردن کے بادشاہ عبداللہ الحسین الثانی، قطر کے امیر تمیم بن حمد، بحرین کے امیر شیخ حمد بن الخلیفہ اور سوڈان کے صدر عمر حسن البشیر کو اعتماد لیا، ان سے تفصیلی گفتگو کی تمام علاقائی اور اتحادیوں شاہ سلمان کو یقین دہانی کرائی۔ ترکی نے یمن میں حوثی باغیوں کیخلاف سعودی عرب اور اتحادیوں کے فضائی آپریشن کی حمایت کردی ہے۔ ترک صدر طیب اردگان نے خطے میں ایرانی مداخلت کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ایران خلیجی ریاستوں میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانا چاہتا ہے، خطے میں ایرانی اجارہ داری کسی صورت قائم ہونے دینگے۔ یمن کے وزیر خارجہ نے کہا ے کہ حوثی باغیوں پر حملے کے باوجود مذاکرات کا امکان ہے۔ یمن کی حکومت نے ہمیشہ مذاکرات پر زور دیا ہے۔ یمن میں مذاکرات صدر اور ریاست کو قانونی حیثیت دیتے ہوئے ہونے چاہئیں۔ یمن کے صدر عبدالربو منصور ہادی عرب لیگ کے اجلاس میں شرکت کیلئے مصر کے شہر شرم الشیخ پہنچ گئے ہیں۔ یمن کے وزیرِ خارجہ ریاض یاسین کا کہنا ہے کہ حوثی باغیوں کی جارحیت روکنے کے لیے کارگر فضائی حملے درکار ہیں لیکن انھیں باغیوں کی پیشقدمی رکتے ہی ختم ہو جانا چاہئے۔ حوثی قبائلیوں کے رہنما عبدالمالک الحوثی نے سعودی حملوں کو مجرمانہ جارحیت قرار دیا ہے۔ شرم الشیخ سے بی بی سی کو خصوصی انٹرویو میں ریاض یٰسین کا کہنا تھا کہ سعودی قیادت میں فوجی اتحاد کے یمنی سرزمین پر فضائی حملے جتنی جلدی ممکن ہو، ختم ہونے چاہئیں۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے یمنی وزیرِ خارجہ نے کہا کہ اگر ان حملوں کے مطلوبہ نتائج نکلتے ہیں اور حوثی باغیوں کی پیش قدمی رک جاتی ہے تو یہ بمباری دنوں بلکہ گھنٹوں میں رک سکتی ہے۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ ان کے ملک میں اس غیرملکی عسکری کارروائی سے کوئی بھی خوش نہیں لیکن یمن کو ایران نواز حوثیوں کی جارحیت روکنے کے لیے اپنے ہمسایوں کی مدد لینے پر مجبور ہونا پڑا تاکہ انھیں دھچکا پہنچایا جا سکے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ وہ اس بارے میں یقین سے کچھ نہیں کہہ سکتے کہ اگر فضائی حملے باغیوں کی پیش قدمی نہ روک سکے تو کیا عرب رہنما زمینی فوج یمن بھیجنے پر تیار ہوں گے یا نہیں۔ سعودی عرب کا کہنا ہے کہ یمن میں حوثی باغیوں کے خلاف فضائی حملے جاری رہیں گے لیکن وہ ابھی وہاں زمینی فوج بھیجنے کا ارادہ نہیں رکھتا۔ دریں اثنا قبائلیوں نے جھڑپوں کے دوران 21 حوثی ہلاک کر دیئے ہیں۔

ای پیپر-دی نیشن