• news

پاکستان کیلئے خارجہ پالیسی اور خطہ میں سلامتی کے تناظر میں نئے چیلنج

اسلام آباد (سہیل عبدالناصر) یمن کی خانہ جنگی اور اب پاکستان کے دو بہترین دوستوں ترکی و سعودی عرب کی ایران کے ساتھ کشیدگی، ایران و امریکہ کے درمیان ممکنہ ایٹمی ڈیل کے نتائج نے پاکستان کیلئے خارجہ پالیسی اور خطہ میں سلامتی کے تناظر میں نئے چیلنج پیدا کر دئیے ہیں۔ اس صورتحال سے واقف ایک شخصیت کے مطابق پاکستان کیلئے اصل چیلنج یہ ہے کہ وہ سعودی عرب اور ترکی جیسے دیرینہ دوستوں کے مﺅقف کی اس انداز میں کھلی حمایت کرے جس کے باعث نہ تو ایران کے ساتھ اس کے تعلقات پر اثرات مرتب ہوں اور نہ ہی ملک کے اندر خلفشار کی صورتحال پیدا ہو۔یہ امر قابل ذکر ہے کہ سعودی عرب اور خلیجی ریاستوں کا الزام ہے کہ ایران ،بغاوت کرنے والے یمن کے حوثی قبائل کی فوجی،مالی اور سفارتی مدد کر رہا ہے جب کہ ایک روز پہلے ترکی کے صدر رجب طیب اردگان نے ایک پریس کانفرنس میں کھل کر ایران پر الزام عائد کیا کہ وہ خطہ میں اثر و رسوخ بڑھانے کیلئے باغیوں کی مدد کر رہا ہے۔ اس بیان پر ایران کا سخت ردعمل سامنے آیا ہے۔شام میں خانہ جنگی شروع ہونے کے ابتدائی ایام کے بعد مشرق وسطٰی میں حالات کی یہ دوسری تبدیلی ہے جس نے پاکستان کے پالیسی اور فیصلہ سازوں کو سر جوڑ کر بیٹھنے پر مجبور کر دیا ہے کہ پاکستان کا اس صورتحال میں طرز عمل کیا ہونا چاہیے۔اس ذریعہ کے مطابق اہم بات یہ ہے کہ مشرق وسطیٰ میں تازہ ترین تبدیلیوں کے باعث عربوں اور ترکی کے درمیان تاریخی سرد مہری ختم ہو گئی اور دونوں ایک دوسرے کے قریب آ رہے ہیں۔ ترک صدر کی طرف سے یمن کے بحران پر سعودی عرب کی حمایت اور ایران کی مذمت نے ان تعلقات میں مزید گرمجوشی پیدا کر دی ہے۔یمن کی صورتحال کے علاوہ سوئٹزر لینڈ میں ایران اور پی فائیو پلس کے درمیان ایٹمی ڈیل کیلئے مذاکرات نازک مرحلہ میں داخل ہو چکے ہیں۔ پاکستان پہلے ہی چین اور بھارت جیسی ایٹمی طاقتوں کا پڑوسی ہے۔چین کے ساتھ انتہائی دوستانہ اور تعلقات اور بھارت کے ساتھ دشمنی ہے۔ پاکستان کبھی نہیں چاہے گا کہ اس کے پڑوس میں ایک اور ایٹمی طاقت معرض وجود میں آئے کیونکہ افغانستان سمیت متعدد دیگر عوامل نے پاکستان اور ایران کے درمیان ہمیشہ عدم اعتماد کی فضاءقائم رکھی۔البتہ پاکستان، ایران پر عائد پابندیوں کے ہٹنے کا ضرور متمنی ہے تاکہ دو طرفہ تجارت میں ادائیگی کی رکاوٹیں دور ہوں اور گیس پائپ لائن منصوبہ پر پیشرفت ہو سکے۔
نئے چیلنج

ای پیپر-دی نیشن