کئی رنگ ہار جیت کے اور خاکی رنگا رنگی
میرے خیال میں پاکستان سے محبت کرنے والوں کے لئے دو خوشخبریاں آئی ہیں۔ ایک یوم پاکستان پر شاندار اور جلال و جمال والی فوجی پریڈ اور دوسری کرکٹ کے ورلڈ کپ کے سیمی فائنل میں بھارت کی شرمناک شکست۔ ایک عام نوجوان کسی ٹی وی چینل پر کہہ رہا تھا کہ دشمن کی کھیل میں شکست پر خوش نہیں ہونا چاہئے مگر ہم بھارت کی ہار پر بہت خوش ہیں۔ بھارتی پاکستانی ہار پر خوشی مناتے ہیں۔ طنزیہ پروگرام کئے جاتے ہیں۔ ہندو میڈیا خوشی ہے تڑپتا ہے۔ بھارت پاکستان کا دشمن ہے اور پاکستان بھی بھارت کا دشمن ہے۔ دونوں طرف عام لوگ ایک دوسرے کے ساتھ نفرت اور دشمنی کے جذبات رکھتے ہیں۔ پاکستان کے لوگ پھر بھی کچھ کشادہ اس حوالے سے ہیں جبکہ بھارت کے لوگ بالکل نہیں ہیں۔ وہ نام کے سیکولر اور جمہوریت پسند ہیں۔ پاکستان کے مسلمان تو رہے ایک طرف بھارتی مسلمانوں کے لئے بھی ان کے زہر آلود اور قہر آلود ارادے ان کے خون ناحق میں لت پت ہوتے رہتے ہیں۔ پاکستان کی کرکٹ ٹیم کسی ملک سے ہار جائے تو اتنا دکھ نہیں ہوتا۔ بھارت سے ہارنے کی تکلیف بہت زیادہ ہوتی ہے۔ پاکستان کی کرکٹ ٹیم کے لئے بھارت جو کرے مگر اس سے پاکستان دشمنی بھی ان کی آنکھوں میں ہوتی ہے۔ بھارت کی دھونی الیون کو رونی الیون کہا جا رہا ہے۔ کوہلی کی بیڈ پرفارمنس کا ذمہ دار خوبصورت اداکارہ انوشکا شرما کو قرار دیا جا رہا ہے۔ اسے منحوس کہا گیا ہے۔ وہ کہہ رہی ہے کہ میرا کیا قصور ہے؟ اس کا قصور یہ ہے کہ وہ خوبصورت ہے اور وہ کوہلی سے محبت کرتی ہے مگر بھارت والے کتنے ظالم متعصب اور محبت کے دشمن ہیں۔ پاکستانی بھی ویسی ہی جذباتیت کا اظہار کرتے ہیں۔ یہ پاکستان سے محبت ہے۔ بھارت ہم سے زیادہ انتہا پسند ہے۔ بھارت اس تلخ حقیقت کو سمجھے اور پاکستان میں بھارت دوستی کے دھوکے میں مبتلا لوگ بھی سمجھیں۔
چودھری محمد سرور نے شہباز شریف کی محبت کا اعتراف کیا ہے۔ ”وہ 20 گھنٹے کام کرتے ہیں مگر ان کی ناکامی یہ ہے کہ ان کے پاس ان کی طرح محنت کرنے والی مخلص ٹیم نہیں ہے۔“ ایک تو شہباز شریف نے آس پاس رانے اور رانیاں اکٹھی کر رکھی ہیں۔ رانا اقبال، رانا ثنااللہ، رانا مشہود اور رانا ارشد وغیرہ وغیرہ۔ رانیاں آپ خود ڈھونڈیں۔
کھلنا رات کی رانی کا
ملنا یار جانی کا
گرمی اس کی باتوں کی
چشمہ ٹھنڈے پانی کا
چودھری سرور سے اپنی یاری ہے۔ یاری تو شہباز شریف کے لئے بھی ہم نے چاہی تھی مگر اس کے لئے انا اور استثنا نے روک لیا۔ حاکم کا بھی دوست ہونا بہت ضروری ہے۔ باقی بات شعیب بن عزیز کو معلوم ہے؟ کہ اس جیسا مخلص اور وفا حیا والا افسر اور دوست میں نے کم کم انتظامی حلقوں میں دیکھا ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ وہ اپنے کام سے کمٹمنٹ رکھتا ہے اور اس پر کسی بھی حوالے اعتبار کیا جا سکتا ہے۔
جس پولیس نے یوحنا آباد کے حادثے میں خاموشی اختیار کی حتیٰ کہ دو بے قصور انسانوں کو ان کے قبضے سے چھڑا کہ مسیحیوں نے زندہ جلا ڈالا ان میں دو ایک ملک سے باہر بھاگ گئے ہیں۔ ان کو باہر بھجوانے والے کوئی معمولی آدمی نہیں ہوں گے۔ شہباز شریف تو غالباً جلنے والے نعیم کے گھر قصور میں گئے۔ ان کا گھر بھی دیکھا ہو گا۔ انہیں صرف 5 لاکھ روپے دینے کا اعلان کیا۔ جبکہ انہوں نے پولیس کے شہیدوں کے لئے کروڑوں روپے دے دیے تھے۔ پولیس کے لئے یوحنا آباد میں کئی پولیس افسران کے لئے میں نے تعریف بھی کی تھی مگر یوحنا آباد میں ڈر جانے والی پولیس نے بے چارے کسانوں کا مار مار کر بھرکس نکال دیا اور انہیں گرفتار بھی کر لیا تو پولیس والوں کی یہ دہری پالیسی کیا ہے؟ گرفتار شدہ کسانوں کی رہائی کے احکامات شہباز شریف نے دیے۔ ان کا شکریہ مگر یہ تو بتایا جائے کہ ان کی توہین آمیز مار کٹائی اور گرفتاری کے احکامات کس نے دیے تھے؟ بھارت کے کسان اور پاکستان کے کسان میں اتنا فرق کیوں ہے؟ ہم زرعی ملک ہیں اور اجناس باہر سے بھی منگواتے ہیں۔ سیاستدان امیر کبیر انسان تو کروڑوں روپوں کا قرضہ بینکوں سے معاف کرا لیتے ہیں۔ کسانوں کے چند لاکھوں کے قرضے کے لئے پولیس ا نکے گھروں پر چھاپے مارتی ہے۔ اس ملک میں بندہ¿ مزدور کے اوقات بھی تنگ ہیں مگر کسانوں کے گھروں میں بہت تنگی ہے۔ ساغر صدیقی نے فقیر کا لفظ استعمال کیا ہے مگر ان کی مراد فقیر سے کسان ہیں؟
جس عہد میں لٹ جائے کسانوں کی کمائی
اس عہد کے سلطان سے کچھ بھول ہوئی ہے
میں نے ایک بہت اچھی خبر کے طور پر یوم پاکستان پر شاندار فوجی پریڈ کے سات سال بعد انعقاد کا ذکر کیا ہے۔ پورے پاکستان میں یہ پریڈ بڑے جوش و جذبے سے دیکھی گئی۔ کوئی پوچھنے والا ہے جنرل کیانی سے کہ یہ پریڈ کیوں بند کی گئی تھی۔ اب دہشت گرد کہاں ہیں؟ ان کے لئے آپریشن ضرب عضب آپریشن ضرب غضب بن گیا ہے۔ کہا گیا کہ آپریشن ضرب غضب ایک نظریہ ہے۔ اس نظریے کا سفر ماضی قریب اور ماضی بعید دونوں کی طرف سے۔ نظریہ پاکستان اور رحمت اللعالمین محسن انسانیت رسول کریم حضرت محمد کی تلوار کی کامرانیوں اور مہربانیوں کی یاد۔ یہ یاد ان کے فرمان غزوہ¿ ہند کی یاد بھی دلاتی ہے۔ پاکستان خطہ¿ عشق محمد ہے۔ جنرل راحیل اس نظریے کے پاسبان سپہ سالار ہیں۔