چِین میں ’’شہبازِ پاکستان‘‘ کے شاگِرد
ایک ایک لفظ کے کئی کئی معنے ہوتے ہیں۔ ’’Constitution‘‘ کے بھی کئی معنے ہیں لیکن ’’آئِین‘‘ اور ’’دستُور‘‘ مقبولِ عام و خاص ہیں۔ علّامہ اقبال نے کہا تھا ؎
آئینِ جواں مَرداں ٗ حق گوئی و بے باکی
اللہ کے شیروں کو ٗ آتی نہیں رُوباہی
علّامہ صاحب نے اپنے اِس شعر میں اللہ کے شیروں اور لُومڑیوں کے اپنے اپنے آئِین میں فرق بیان کِیا ہے۔ ’’شیر‘‘ جنگل کا ہو یا شہر کا ٗ لُومڑی سے مات کھا جاتا ہے۔ جنگل اور شہر کا آئِین یا دستُور کیسا ہو؟ یہ بھی ’’شیر‘‘ اور اُس کے درباری ہی فیصلہ کرتے ہیں۔ عوامی شاعر جناب حبیب جالبؔ نے فیلڈ مارشل صدر ایوب خان کے نافذ کردہ 1962ء کے دستُور کے بارے میں کہا تھا ؎
ایسے دستُور کو ٗ صُبحِ بے نُور کو!
مَیں نہیں مانتا ٗ مَیں نہیں جانتا
’’یوم دستُور اور شاہراہِ دستُور؟‘‘
خبر ہے کہ ’’پاکستان میں پہلی مرتبہ 1973ء کے دستُور (آئِین) کی یاد میں 10 اپریل کو ’’یومِ دستُور‘‘ منایا جا رہا ہے۔‘‘ دستُور نافذ ہونے کے بعد سویِلین مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر اور صدرِ پاکستان جناب ذوالفقار علی بھٹو نے مارشل لاء اُٹھا لِیا تھا لیکن مُلک میں ہنگامی حالت نافذ کر کے عوام کو بنیادی حقوق سے محروم کر دِیا تھا۔ جنابِ بھٹو نے قومی اسمبلی میں اپنی پارٹی کی عددی اکثریت کے بَل پر آئِین میں 7 ترامیم کرا دِی تھیں۔ اُن کے بعد جنرل ضیاالحق نے اِقتدار سنبھال کر کہا ’’آئِین کیا ہے؟ چند صفحوں کی ایک کتاب جِسے مَیں جب چاہُوں پھاڑ کر پھینک سکتا ہُوں۔‘‘ انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ ’’مَیں جب بھی اشارہ کرُوں گا تو ہر سیاستدان اپنی اپنی دُم ہلاتا ہُوا میرے پاس چلا آ ئے گا۔‘‘ وہ سیاستدان جو ’’قُرب ِسُلطان‘‘ کے ’’طالبان‘‘ تھے اور اُن کی دُمیں بھی نہیں تھیں۔ انہوں نے بازیابی کے لئے مصنوعی دُمیں لگوا لی تھیں۔ جمہوریت کے نام پر بالادست طبقے جمہور کے لئے دستُور بناتے ہیں اور دستُور ساز اسمبلی تک پہنچنے کے لئے شاہراہِ دستوُر پر بھی ’’آوا جائی‘‘ کرتے رہتے ہیں۔ علّامہ اقبال نے پیش اَز وقت ہی کہہ دِیا تھا کہ ؎
فلک نے کی ہے عطا اُن کو خواجگی کہ جِنہیں
خبر نہیں کہ رَوشِ بندہ پروری کیا ہے؟
علّامہ صاحب اگر اسلام آباد کی شاہراہِ دستُور پر دھرنا دھارِیوں اور حُکمرانوں میں ’’نُورا اور حضُورا کُشتیاں‘‘ دیکھتے توکیا کہتے؟ اور کیا کرتے؟ پوری دُنیا میں سال میں ایک دِن (15 ستمبر کو) ’’Democracy Day‘‘ یعنی جمہوریت کا دِن منایا جاتا ہے ٗ اِس موقع پر جمہور کی باقی 364 دِن کی تھکاوٹیں اور تکلیفیں دُور ہو جاتی ہیں اور وہ اگلے سال کا اِنتظار کرتے ہیں۔ اِسی طرح جب ہر سال ’’Father`s And Mother`s Days‘‘ منائے جاتے ہیں تو والدین بھی اپنی ناخلف اولاد کے پُورے سال کے گُناہ معاف کر دیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے دُعا کرنا چاہیے کہ ہمارے مُنتخب قائدِین ہر سال یومِ دستُور مناتے رہیں۔ عید کے دِن کسی مظلوم شاعر نے اپنی ظالم محبوبہ کو مخاطب کرتے ہُوئے کہا تھا ؎
’’عید کا دِن ہے گلے آج تو مِل لے ظالم
رسمِ دُنیا بھی ہے موقع بھی ہے دستُور بھی ہے‘‘
چِین میں ’’شہبازِ پاکستان‘‘ کے شاگِرد
ایک خُوش کُن خبر یہ ہے کہ ’’عوامی جمہوریہ چِین کے کارپوریٹ سیکٹر ٗ تجارتی اداروں اور سرکاری اور نِیم سرکاری محکموں میں تیز رفتاری ٗ غیر معمولی لگن اور محنت سے کام کرنے والوں کو ’’شہباز شریف کے شاگرد‘‘ کے نام سے پکارا جاتا ہے۔‘‘ خبر کے مطابق ’’میاں شہباز شریف نے 20/20 گھنٹے کام کر کے چِینیوں کو بھی ہرا دِیا ہے‘‘ حالانکہ میاں شہباز شریف اور چِین کے اونچے اور نچلے درجے کے محنت کشوں کا اُن سے دوستانہ میچ نہیں ہو رہا تھا۔ مَیں تو پہلے ہی میاں شہباز صاحب کا ’’مدّاح‘‘ تھا۔ اِس لئے کہ ڈاکٹر مجید نظامی صاحب نے اُنہیں فروری 2012ء میں ’’شہبازِ پاکستان‘‘ کا خطاب دِیا تھا لیکن اُن کے چِینی شاگِردوں کی خبر سے مجھے باقاعدہ اُن کی ’’مدّاحی‘‘ کا موقع مِل رہا ہے۔ میاں شہباز شریف نے بہت عرصہ پہلے ’’خادمِ اعلیٰ پنجاب‘‘ کا لقب اختیار کر لِیا تھا لیکن جنابِ مجید نظامی اُن کی سارے پاکستان میں پرواز دیکھنے کے خواہش مند تھے۔ اُنہی دِنوں مَیں نے کہا تھا ؎
’’جاری ہو گیا بابا مجید نظامی دا فرمان
میاں شہباز شریف نیں ہُن شہبازِ پاکستان!
تہاڈے زیرِ سایہ اُڈ نہیں سکدے بھُکھے ممولے
بے رُزگاری ٗ مہنگیائی توں چھڑائو اینہاں دی جان‘‘
’’ممولا‘‘ ایک چھوٹا سا پرندہ ہے۔ آپ جانتے ہی ہوں گے اور اُس کی شہباز کے مقابلے میں کوئی اوقات نہیں ہوتی۔’’لڑا دے ممولے کو شہباز سے!‘‘ بھی ایک فلسفہ ہے لیکن بے چارہ ممولا خُود تو نہیں لڑ سکتا۔ کوئی ماہر اُستاد اُسے لڑا دے تو اور بات ہے۔ پنجابی زبان کا اَکھان ہے کہ ’’بٹیرے نہیں لڑ دے اُستاداں دے ہتّھ لڑ دے نیں۔‘‘ علّامہ اقبال نے بھی نہ جانے کِس کی ڈیوٹی لگائی تھی جب کہا کہ ؎
’’جوانوں کو پِیروں کا اُستاد کر!‘‘
بہرحال اہلِ پنجاب بلکہ سارے پاکستان کو مبارک ہو کہ چِین کی نئی نسل کو ’’شہباز پاکستان‘‘ کی صُورت میں ایک عامل کامل اُستاد مِل گیا ہے۔ اب اُن ’’حاسدوں‘‘ کے مُنہ بھی بند ہو جائیں گے جو کہا کرتے ہیں کہ ’’یہ میاں شہباز شریف بار بار چِین کیوں جاتے ہیں؟ اب پتہ چلا؟ کہ میاں صاحب وہاں ؎
’’کچھ کام کرو کچھ کام کرو
دُنیا میں پیدا نام کرو!‘‘
کا پیغام لے کر چِین میں تنخواہ دار لوگوں کو مُفت ٹیوشن پڑھانے جاتے رہے ہیں۔ پنجاب اور پاکستان کے دوسرے صُوبوں میں چونکہ بے روز گاری بہت زیادہ ہے لہٰذا شہباز پاکستان یہاں کسی کو کیا بتائیں اور کیا سکھائیں؟ خبر میں بتایا گیا ہے کہ ’’خادمِ اعلیٰ 20/20 گھنٹے کام کرتے ہیں۔ آرام صِرف 4 گھنٹے کرتے ہیں۔ لیکن جِن مُعمر والدین کے بیٹے بے روز گار ہوں اور شادی کے قابل بیٹیاں جہیز نہ ہونے کی وجہ سے گھروں میں بیٹھی بیٹھی بُوڑھی ہو رہی ہوں وہ تو 24/24 گھنٹے ہی جاگنے میں گزار دیتے ہیں۔ آرام کا تو موقع ہی نہیں مِلتا۔ اُستاد اور شاگرد کا رِشتہ بہت پاکِیزہ سمجھا جاتا تھا/ ہے۔ علّامہ اقبال نے اپنے دَور میں نامعقول شاگردوں پر طنز کرتے ہُوئے کہا تھا ؎
بدلا زمانہ ایسا کہ لڑکا پس از سبق
کہتا ہے ماسٹر سے کہ بِل پیش کیجئے!
علّامہ اقبال کے دَور میں اُستاد بطور انعام شاگردوں کو کچھ نہ کچھ دِیا کرتے تھے۔ اُس انعام کو ’’شاگِردانہ‘‘ کہا جاتا تھا لیکن قدیم ہندوستان میں اُستاد (گُرو) اپنے فارغ التحصیل چیلے (شاگرد) سے ’’گُرو دکشنا‘‘ (گُرو کا انعام) لِیا کرتا تھا۔ کبھی کبھی گُرو اپنے چیلے سے کوئی مُشکل کام کرنے کا وعدہ بھی لے لِیا کرتا تھا۔ ہندوئوں کی مقدّس کتاب ’’مہا بھارت‘‘ میں ایک گُرو ’’درون اچاریہ‘‘ کا ذِکر ہے جِس نے کورُوئوں اور پانڈوئوں کو فنِ سپہ گری سِکھایا تھا۔ گُروہ درون اچاریہ نے اپنے ایک چیلے ’’کرن‘‘ کو تِیر اندازی میں کمال عطا کِیا لیکن جب اُس نے پانڈِوئوں کا ساتھ نہیں دِیا تو گُرو نے کرن سے کہا کہ ’’اپنا انگوٹھا کاٹ کر میرے حوالے کر دو! چیلے نے حُکم کی تعمیل کر دی۔ دیکھنا یہ ہے کہ کیا چِین میں ’’شہبازِ پاکستان‘‘ کے شاگِرد اُن کو ’’گُرو دکشنا‘‘ دیں گے یا وہ اپنے اُستاد سے شاگِردانہ وصُول کریں گے ؟