• news

میانوالی تک

سرگودھا یونیورسٹی میانوالی کیمپس کے ڈائریکٹر پروفیسر ڈاکٹر الیاس طارق کا فون آیا کہ 26 مارچ کو ”انسداد دہشت گردی اور استحکام پاکستان“ کے عنوان سے سیمینار کا انعقاد کر رہے ہیں۔ انکے مطابق مقررین میں ڈاکٹر اجمل نیازی، حفیظ اللہ نیازی ،پروفیسر نعیم مسعوداور میرا نام تھا۔تقریب کا وقت صبح دس بجے تھا اسلئے آسانی کیلئے رات ہی کو میانوالی جانے کا فیصلہ ہوا۔ لاہور بڑا خوبصورت ہے۔ اسکی سڑکیں کشادہ اور فروزاں ہیں۔ ہم جیسے جن لوگوں نے پیرس نہیں دیکھا وہ لاہور کی سڑکوں، اسکے اردگرد گرین بیلٹس اور رات کو سڑک پر جگمگاتی و جھلملاتی روشنیوں کو دیکھ کر لاہور کو پیرس سے تعبیر کرتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ اَبر ذرا زور سے برسے تو لاہور وِی±نَس± بن جاتا ہے۔ VENICE اٹلی کا پانی میں بسا ہوا شہر ہے۔ آمدورفت کیلئے کشتیاں چلتی ہیں۔ لاہور میںبارش کے دنوں میں ہر گاڑی کشتی بنی نظر آتی ہے۔ رات نو بجے لاہور سے میانوالی کیلئے روانگی ہوئی۔ ہم سفر پروفیسر ڈاکٹر شفیق آصف تھے۔ موٹروے پر فراٹے بھرتی گاڑی محو خواب پانی پر تیرتی محسوس ہوئی۔ سیال موڑ سے سرگودھا کیلئے موٹروے سے اترے تو لگا پیرس سے پاکستان آ گئے ہیں اور پھر میانوالی تک بشمول سرگودھا کے پاکستان ہی پاکستان ہے۔ عبدالرﺅف کی ڈرائیورنگ متاثر کن تھی۔ اسکی مہارت سے ٹوٹی سڑک کے جھٹکے کم کم محسوس ہوئے۔ موسم سہانا، رات کا سماں، سڑک کے گرد کا ماحول درختوں اور بستیوں کی مدھم روشنیوں کے باعث طلسماتی لگ رہا تھا۔ پانچ گھنٹے کا یہ سفر خوشگوار اور یادگار رہا۔ سرگودھا سے نکلتے ہی پروفیسر شفیق نیند کی آغوش میں چلے گئے۔رات 2 بجے میانوالی شہر میں داخل ہو ئے۔ شفیق آصف جاگ چکے تھے۔انکی نظریں سڑک پر تھیں۔ رﺅف نے گاڑی کی رفتار دھیمی کرتے ہوئے کہا ہم شایدآگے نکل آئے ہیں۔جہاں سے واپس مڑے اور سوا دو بجے کیمپس پہنچے جہاں الیاس طارق ہمارے منتظر تھے۔ انہوں نے چائے کا پوچھا میرے شکریہ ادا کرنے پر ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ انہوں نے بھی پینی ہے۔ پھر خود چائے بنائی،پی اور پلائی۔ مجھے بیڈ روم دکھایا۔ شاید نئی جگہ تھی رات جو بچی تھی بند آنکھوں کے ساتھ کروٹیں بدلتے گزری۔ صبح سات بجے اٹھ کر نہانے لگا۔ لاہور میں گیزر اکتوبر میں چلا لیتے ہیں مگر یہاں پانی ٹھنڈا ٹھار تھا۔ ایک بار سوچا نہانے کی ضرورت نہیں ہے‘ پھر ہمت کرکے شاور کے سامنے سر جھکا دیا۔ سر سے کمر تک پانی کیا آیا خود کو سائیبیریا کی برف پوش چوٹیوں پر کچھے میں کھڑا محسوس کیا۔ایک دم سے چھلانگ لگا کرکونے میں کھڑا ہوگیا۔شاور سے موت کی پھوار نکلتی نظر آرہی تھی۔مردانگی کا سوال تھا تھوڑی ہچکچاہٹ کے بعد مردانہ وار چھاور کے نیچے جا کھڑا ہواالبتہ جان پر بنی ہوئی تھی۔ سوچا کہ ایسا نہیں ہو سکتا کہ گیزر نہ ہو۔ ہینڈل کو فل ایک طرف پھر دوسری طرف گھمایا تو پانی کی ٹھنڈک میں ہلکی سی تمازت کا احساس ہوا۔گیزر واقعی چل رہا تھا جسکااپنی حماقت سے پتہ نہ چل سکا۔ باقی آدھا غسل گرم پانی سے کیا۔ شام کو رﺅف سے ملاقات ہوئی وہ غصے میں تھا کہ اسے ناشتے کا کسی نے نہیں پوچھا۔ میں نے کہا بھئی! اس کا نام بتاﺅ جس سے کسی نے ناشتے کاپوچھاہو۔ میرے اس سوال پر اسکی ناراضگی ختم ہو گئی۔ ڈاکٹر صاحب نے مجھے پوچھے بغیر ناشتہ کرا دیا تھا۔ لاہور سے ڈاکٹراجمل نیازی ناسازیِ طبیعت کے باعث اپنے ہی وطن نہ جاسکے ان کی کمی ہر کسی نے شدت سے محسوس کی۔پروفیسر نعیم مسعود نے رات دو بجے ائیر پورٹ سے فیملی ممبر مہمانوں کو لینا تھا وہ ساری رات جاگتے اور سفر میںرہے۔تقریب کے روحِ رواں ،وائس چانسلر سرگودھا یونیورسٹی پروفیسر ڈاکٹر محمد اکرم چودھری اپنی اہلیہ محترمہ ریحانہ اکرم کے ساتھ کارڈ پر دیئے گئے وقت کیمطابق پہنچ گئے۔وقت کی پابندی کے حوالے سے یہ خوش کن تجربہ رہا۔ ہر مہمان ” قائدِ اعظم ٹائم“ پہ پہنچا ۔وی سی صاحب نے اپنے ہاتھوں سے لگائے پودے میانوالی کیمپس کا افتتاح کیا اسکے بعد ڈائریکٹر کیمپس کے دفتر میں یونیوسٹی آف سرگودھا کی کارکردگی ،اسکی دریافتوں اور ایجادات پر دلکش و دلپذیر بریفنگ دی۔وقت پر سیمینار کا آغاز ہوا۔پروفیسرطارق حبیب کی نقابت اور مہارت قابل داد اور قابل دید تھی۔طلباءطالبات کی تعداد تین ہزار کے لگ بھگ تھی۔ڈسپلن کے حوالے سے یونیورسٹی کے سٹوڈنٹس کسی دوسرے مہذب ومتمدن سیارے کی مخلوق دکھائی دیتے تھے۔ Pin drop silence تھی تاہم یہ بچے مقرر کو داد دینے میں بھی بُخل سے کام نہیں لے رہے تھے۔ جن معززین نے اس تقریب کو رونق بخشی ان میں ڈاکٹر نرگس سلطانہ الیاس طارق، جنرل (ر) رفیع اللہ ،ایم پی اےز ڈاکٹر صلاح الدین، انعام اللہ خان نیازی ،غضنفر عباس چھینہ،ڈی او سی عبدالقادر شاہ، ڈاکٹر حسین احمد پراچہ،ظہور الحسن ڈوگر ، ڈاکٹر عاشق حسین ڈوگر ،ڈاکٹر جاوید ،ڈاکٹر نواز محسود، ڈاکٹر غلام یٰسین ،ڈاکٹر محمد افضل ،ڈاکٹر محمد اشرف نیازی‘ ڈاکٹر محمد ظفر ،غلام یٰسین چوہان ، ڈاکٹر مسعود سرور اعوان، بریگیڈیئر (ر) راﺅ جمیل اصغر ،محمد عثمان اور دیگر شامل تھے۔تقاریر کا سلسلہ شروع ہوا تو مجھے سٹارٹر کے طور پر دعوتِ خطاب دی گئی۔میری کوشش ہوتی ہے کہ تحریر اور تقریر قارئین اور حاظرین پر بوجھل نہ ہواس لئے میں ہلکا پھلا انداز اختیار کرتا ہوں۔موضوع کے اندر رہنے اور وقت کی پابندی کی خاطر پوائنٹ لکھ کو انہی کے مطابق اظہار کرتا ہوں۔مہمان مقرر ہم تین تھے۔ میں نے دس سے بارہ منٹ کی تقریر تیار کی تھی۔ کمپیئر کے پاس شاہد ایک ہی پاور پلے،ریویو یا لائف لائن کی صورت میں پرچی تھی جو انہوں نے تین منٹ بعد ہی ڈائس پر رکھ دی ”مختصر کرلیں“اس وقت تک میں ابھی تمہید ہی سے باہر نکلا تھا۔ پہلے بتایا ہوتا تو میں پانچ منٹ میں اپنی بات مکمل کر لیتا۔چِٹ کے روسٹرم پر چپکنے کے بعدمجھے جھٹ پٹ تقریر سمیٹنا پڑی۔ اگر کسی کو میری ادھوری بات سمجھ آگئی تو یہ اسکی اپنی ذہانت اورخداداد اہلیت و صلاحیت ہے۔پروفیسرنعیم مسعود اپنے خطاب کے دوران اجتماع کو ہنساتے اور تاریخی حوالے دیکرجذبہ حب الوطنی کوجِلا بخشتے رہے۔ حفیظ اللہ نیازی نے جوشِ خطابت سے پنڈال کے ماحول کے گرمائے رکھا۔ڈاکٹر اکرم چودھری کاایک انداز بیاں ایسا دوسرے تحریک آزادی کے واقعات نے تو رُلا کے رکھ دیا۔جتنا میں جانتاہوںاکرم چودھری درویش صفت ، مرنجاں مرنج اور بزلہ سنج شخصیت ہیں۔ ڈرائیورز سے ڈائیریکٹرز اور ڈینز، پیئن سے پروفیسرز تک وی سی کیلئے انکی عدم موجودگی میں رطب اللسان اور دیدہ و دل فراش راہ کیے نظر آئے۔اہل مجلس انکے شکر گزار اور وہ انکے مشکور تھے۔ یہی انسان کی اصل کمائی اور حاصلِ حیات ہے۔ تقریب کے بعد پرتکلف کھانے کا اہتمام تھا جہاں شرکا نے تکلف نہیں کیا۔یوسف چغتائی نے نوائے وقت کی پلاٹینم جوبلی تقریب کا اہتمام کیا تھا،پروفیسر نعیم مسعود نے اس تقریب کو رونق بخشی۔ واپسی کا سفر سرِشام شروع ہوگیا۔میانوالی بڑا اجلا،سہانا اور خوبصورت لگ رہا تھا۔ لہلہاتی سبزو شاداب فصلیں منظر کوخوبصورت بنارہی تھیں۔ خدا ڈاکٹر اجمل نیازی کے علاقے کو شاد آباد رکھے۔باقی روداد انشاءاللہ پھر کبھی ۔

ای پیپر-دی نیشن