پاکستان اول پاکستان آخر ایک بے قیمت نعمت
صاحب عرفان بابا عرفان الحق کی نجی محفل بہت انوکھی اور خوبصورت ہوتی ہے۔ وہ بات کرتے ہیں جس کی معنویت کے لئے ہم جانتے ہوتے ہیں مگر وہ اپنے خیال و فکر سے اسے ایک جداگانہ معنویت کے جہاں دِگر سے آشنا کرتے ہیں۔ ایک مختلف لطف اور حیرت چاروں طرف بکھر جاتی ہے۔
انہوں نے فرمایا کہ نعمت وہ ہے جسے ہم نعمت سمجھتے ہی نہیں۔ کیونکہ وہ ہمیں بے قیمت مل جاتی ہے۔ دستر خوان سجا دیا جائے۔ قسم قسم کے کھانے اور پکوان سامنے ہوں مگر بھوک نہ ہو تو کوئی کچھ بھی نہیں کھا سکتا۔ یہ بھوک نعمت ہے اور اس پر کچھ خرچ نہیں ہوتا جبکہ دسترخوان سجانے میں دولت بھی اور محنت بھی صرف ہوتی ہے۔ بہترین بیڈ روم ہو۔ اس میں بیش قیمت بہت اعلیٰ بیڈ بچھا ہوا ہو مگر نیند نہ آئے۔ یہ نیند نعمت ہے اور اس کے لئے کچھ خرچ نہیں ہوتا۔ ہم بے قیمت اور بیش قیمت میں فرق ہی نہیں کرتے۔ جو بے قیمت ہے وہ بیش قیمت ہے اور جو بیش قیمت ہے وہ بے قیمت نہیں ہے۔ وقت بہت بڑی نعمت ہے۔ اسے ضائع کرنا ناشکری ہے مگر ہم وقت بے دریغ ضائع کرتے ہیں۔ شاید ہمارے پاس ضائع کرنے کے لئے وقت کے سوا کچھ نہیں ہے۔ اپنی صلاحیتوں کو صحیح طرح سے استعمال نہ کرنا کفران نعمت ہے۔ صلاحیت نعمت ہے اور ہمیں بے قیمت مل گئی ہے اور ہم محنت نہیں کرتے۔
ہمارا وطن پاکستان بھی ایک نعمت ہے۔ اب جتنے حکمران سیاستدان امیر کبیر انسان اور عام انسان ایسے ہیں جنہیں یہ وطن بے قیمت مل گیا ہے وہ اس ملک میں پیدا ہوئے اور پاکستانی بن گئے۔ یہ نعمت ہے۔ اور ہم جو حال پاکستان کا کر رہے ہیں وہ کفران نعمت ہے۔ مگر یہ ایسی نعمت ہے جو ضائع نہیں ہو گی۔ اتنے چیلنجز اور اتنی مشکلات میں کوئی ملک زندہ نہیں رہ سکتا۔ مگر پاکستان قائم ہے اور قائم دائم رہے گا۔ یہ تو دیکھیں کہ ہم چھوٹی سی چیز نہیں بنا سکتے۔ اور ہم نے ایٹم بم بنا لیا ہے تو اس میں حکمت کیا ہے۔ راز کیا ہے۔ ہمیں بے قیمت نعمتوں پر غور کرنا چاہئے اور ان کی حفاظت کرنا چاہئے۔
رحمت اللعالمین رسول کریم حضرت محمد کی ایک عجیب انوکھی دعا ہے ”اے اللہ مجھے چیزوں کو دکھا جیسی کہ وہ اصل میں ہیں۔ چیزوں کی فطرت سے آشنا کر۔ اصل میں جو نعمت ہے اس کے معانی عطا کر۔“ اس دعا میں اضافہ کوئی کیا کرے گا۔ جو بے قیمت ہے اس کی اصل قیمت سے آگہی دے۔ جن چیزوں کو ہم بیش قیمت سجھتے ہیں ان کے ناچیز ہونے کو آشکارا کر۔
ہمارے حکمرانوں اور سیاستدانوں نے پاکستان کو پریشان کر رکھا ہے۔ لوٹ مار کی انتہا کر دی ہے۔ کرپشن اور بدعنوانی اس کے باوجود یہاں وسائل کے انبار بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔
اب سے بہت برس پہلے حضرت بری امامؒ نے فرمایا تھا کہ میری قبر کے آس پاس ایک شہر آباد ہو گا جس کا نام اسلام کے نام کی نسبت سے ہو گا۔ آج وہاں اسلام آباد پھیلتا اور بڑھتا چلا جا رہے۔ یہاں یوم پاکستان کو شاندار فوجی پریڈ ہوئی ہے۔ یہ دنیا بھر کے لئے اور بھارت کے لئے ایک پیغام ہے کہ پاکستان ناقابل تسخیر ہے۔ ہم خود پاکستان کو محکوم بلکہ مظلوم بنانے پر تلے ہوئے ہیں۔ محکوم مظلوم اور محروم رہنے کے باوجود وہ زندہ بلکہ زندگی کے ایک نئی زندگی بننے کے منتظر ہیں۔ مستحق بھی ہیں۔ اب وہ حق مانگیں گے نہیں، چھینیں گے۔
روحانی دانشور واصف علی واصف نے اختصار کو اعجاز بنا دیا تھا۔ انہوں نے فرمایا کہ ”پاکستان نور ہے اور نور کو زوال نہیں۔“ میں نے اس کے لئے سوچا تو اونچائیوں اور گہرائیوں میں فرق مٹ گیا۔ نور اور روشنی میں فرق ہے۔ نور الہامی ہے اور روشنی دنیاوی اور مصنوعی چیز ہے۔ ایک بات لفظ و خیال کے جاہ و جلال کے بادشاہ شورش کاشمیری کے بیٹے آغا مشہود شورش نے کہی اور حیران کر دیا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کے دشمن قرآن کے دشمن ہیں۔ قرآن کی حفاظت کا ذمہ خود اللہ نے اٹھا رکھا ہے۔ پاکستان کی حفاظت بھی وہی کرے گا۔ قرآن 27 رمضان لیلتہ القدر کو نازل ہوا اور پاکستان بھی 27 رمضان لیلتہ القدر کو وجود میں آیا۔ جس نے اس ملک کے لئے جان دی اس کے لئے ہماری جان حاضر ہے۔ 65ءکی جنگ ستمبر سے لے کر دہشت گردی کے خلاف آپریشن ضرب عضب تک جو بھی شہید ہوئے ہم اپنی زندگی ان کے نام کرتے ہیں۔ پاکستان ہے تو تم پاکستان کے حکمران ہو ورنہ تمہیں کسی دوسرے ملک میں کوئی کلرک بھی نہ بنائے گا۔ نوجوان نسل میں غیرت پیدا ہو رہی ہے۔ بے غیرت لابی پاکستان میں کوئی تخریب نہ کر سکے گی۔ عشق رسول میں تلواروں کو اونچا کرو اور عضب رسول کریم کی تلوار ہے۔ یہ نسبت کیا ہے اور نسبت نسب سے بڑی ہے۔ علامہ اقبال اور قائداعظم محمد علی جناح کی عزت پاکستان کی عزت ہے۔ ان دونوں کا جو مخالف ہے۔ وہ پاکستان کا دشمن ہے۔ جو قائداعظم اور قائداعظم کے پاکستان کی مخالفت کرتے ہیں۔ وہ خاک میں مل جائیں گے۔ اس کے لئے درہ عمرؓ کی ضرورت ہے۔ پاکستان اول پاکستان آخر۔ بڑی مدت کے بعد ہمیں ایسا سپہ سالار ملا ہے جس کا انتظار تھا۔ وہ اپنی ذمہ داریوں سے آگاہ ہیں۔ اور پاکستان کے وقار اور اعتبار کو اپنی منزل سمجھتے ہیں۔ انتظار جاری رہا تو اعتبار بھی جاری رہے گا۔ یہ لٹی ہوئی پسی ہوئی اذیت اور ذلت کی دلدل میں دھنسی ہوئی قوم پاکستان سے محبت کرتی ہے۔ تم کر لو جو کرنا ہے۔ یہ سب کچھ سہ لیں گے۔ ان کی باری آئے گی تو تم سہ نہ سکو گے۔ اب اس باری کا انتظار ہے۔ یہ عوامی باری ہو گی۔ سیاسی حکومتی باری نہیں ہو گی۔