پیپلز پارٹی بدترین اندرونی خلفشار کا شکار، حالیہ فیصلوں سے قیادت تقسیم
لاہور (سید شعیب الدین سے) چاروں صوبوں کی زنجیر کہلانے والی پیپلز پارٹی بدترین اندرونی خلفشار کا شکار ہوچکی ہے۔ پارٹی کی ’’اعلیٰ قیادت‘‘ کے حالیہ فیصلوں کی وجہ سے پارٹی کی وفاقی اور صوبائی قیادت بھی تقسیم ہوچکی ہے۔ بلاول بھٹو نے اپنی ماں کی برسی میں شرکت نہ کر کے آصف زرداری کی طرف سے بھجوائے گئے مخدوم امین فہیم اور سید خورشید شاہ کے 2 وفود کو ناکام واپس بھیجنے کے بعد اپنے نانا کی برسی میں شرکت کرنے کیلئے وطن واپس نہ آکر یہ پیغام دیدیا ہے کہ اسے اپنے باپ کی پالیسیوں سے اتفاق نہیں ہے۔ بلاول کے اپنے نانا کی برسی لندن میں منانے کے فیصلے سے یہ واضح ہوگیا ہے کہ بلاول کو منانے کی تمام کوششیں ناکام ہوگئی ہیں مگر دوسری طرف ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ پارٹی کے اندر دو متوازی قیادتوں کے چلنے سے پارٹی کے اندر تباہی مچے گی۔ پارٹی کے سینئر لیڈروں کے مطابق اگر زرداری اور بلاول نے دو متوازی قیادتیں چلانی ہیں تو پھر پارٹی کا اللہ ہی حافظ ہے۔ بلاول کے مسلسل انکار کے بعد آصف زرداری نے 25 جنوری کو 25 سال کی عمر کو پہنچنے اور قومی سیاست میں حصہ لینے والی بختاور بھٹو زرداری کو 4 اپریل کو گڑھی خدا بخش (لاڑکانہ) میں اپنے ساتھ کھڑا کرنے اور تقریر کروانے کا فیصلہ کیا ہے۔ زرداری کے اس فیصلے سے بلاول بھٹو کی ’’ضد‘‘ کو تقویت ملے گی۔ بلاول بھٹو زرداری کو اپنے والد کا وہ جملہ بھی اچھی طرح یاد ہو گا جو انہوں نے دو سال پہلے کہا تھا کہ ’’جہاں سے عَلم چھوڑوں گا آصفہ لیکر اٹھے گی‘‘ مگر یہی آصفہ جسے قومی سیاست میں حصہ لینے کی اہل بننے کیلئے دو سال (23 فروری 2017ئ) کا انتظار کرنا ہے اسوقت لندن میں اپنے بھائی کے ساتھ ہے اور لندن میں نانا کی برسی کی تقریب میں بھائی کے ساتھ ہوگی۔ آصفہ کے حوالے سے کہے جملے سے آصف زرداری نے واضح کیا تھا کہ انکی ترجیح بلاول نہیں بلکہ آصفہ بن گئی ہے۔ زرداری اسوقت بھی بلاول کو پارٹی قیادت سونپنے کیلئے تیار نہیں ہیں مگر انہیں یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ اسوقت پیپلز پارٹی میں بینظیر بھٹو کے تینوں بچوں میں سے سب سے زیادہ مقبولیت بلاول بھٹو کو حاصل ہے۔ بلاول جب پنجاب کے سیلاب میں ڈوبے علاقوں تک پہنچنے کیلئے پانی میں اترا اور گہرے پانیوں سے گزر کر سیلاب سے متاثرہ افراد تک پہنچا تو اسے جو پذیرائی ملی وہ اس سے پہلے اسکے نانا کو ملی تھی۔ بزرگ خواتین نے انکا ماتھا چوما اور انکی بلائیں لیں۔ آج اس ملک میں جہاں جہاں پیپلز پارٹی کا اثر ہے وہاں بلاول کا قد بڑھا ہے۔ بلاول کی جگہ آصفہ یا بختاور کو دینے کیلئے آصف زرداری کو ایک نئی مہم شروع کرنا ہوگی اور بلاول کو میدان میں اتارنے سے زیادہ محنت کرنا ہوگی۔ پارٹی کے کچھ حلقوں کا یہ بھی خیال ہے کہ بلاول اپنے ناراض ’انکلز‘ کو منانے نکلیں گے اور پھر اس مہم کے نتیجے میں بڑے بڑے لیڈر انکے پیچھے صف آراء ہوجائیں گے۔ آصف زرداری پاکستانی سیاست کے جادوگر کہلاتے ہیں مگر دوسری پارٹیوں کو حیران کرنے کی صلاحیتوں سے مالامال آصف زرداری کیلئے اپنے ایک ناراض بیٹے کو منانا مشکل ہوگیا ہے۔ باخبر حلقوں کا کہنا ہے کہ سیاست اور حکومت میں رشتہ داریاں جب بوجھ بننے لگیں تو ان سے چھٹکارا پالیا جاتا ہے۔