مقبوضہ کشمیر کے 124 سرکاری سکولوں میں ایک بھی طالبعلم نہیں
لندن (بی بی سی) مقبوضہ کشمیر میں ایسے 124 سرکاری سکول ہیں جن میں ایک بھی طالب علم نہیں ہے۔ اس کے علاوہ وہاں 5000 سکول ایسے ہیں جن میں طلباء کی زیادہ سے زیادہ تعداد 50 سے ہے۔ بڈگام ضلع کے نجن گاؤں کے پرائمری سکول میں گذشتہ پانچ سال سے نہ تو کسی طالب علم نے داخلہ لیا ہے اور نہ ہی یہاں پہلے سے داخل طالب علم پڑھائی کے لیے آتا ہے۔ یہ سکول 2003 میں بنایا گیا تھا اور اس سکول میں 2010 تک تیس طالب علم تھے لیکن اگلے برس ہی یہ طالب علموں کی تعداد صفر ہوگئی۔ یہاں ایک بھی طالب علم نہیں آتا ہے لیکن اس کے باوجود بھی یہاں دو اساتذہ ہیں لیکن سکول کے دو کلاس روم میں تالا لگا ہوا ہے۔ اس سکول کا صرف دفتر کھلتا ہے جہاں دونوں اساتذہ روز آکر بیٹھتے ہیں۔ سکول کی بدحالی کا عالم یہ ہے کہ یہاں نہ تو بیت الخلاء اور نہ ہی یہاں صفائی ہوتی ہے۔ سکول کی 39 سالہ استاد گلشن جان کا کہنا ہے ’ اب پانچ سال ہونے والے ہیں جب ہمارے سکول میں ایک بھی طالب علم نے داخلہ نہیں لیا ہے۔ ہمیں اس بات سے کافی پریشان ہیں۔ ہم نے کئی بار انتظامیہ کو اس بارے میں بتایا ہے۔ ہم بھی چاہتے ہیں کہ بچے ہمارے سکول میں داخلہ لیں اور یہاں پڑھائی شروع ہو‘۔ وہ اس بات کا اعتراف کرتی ہیں کہ سکول میں بنیادی سہولیات کا فقدان ہے اور یہی وجہ ہے کہ والدین بچوں کو یہاں داخلہ دلانے کے بدلے انگریزی میڈیم سکولوں میں بھیجنا پسند کرتے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر کے وزیر تعلیم نعیم اختر نے گزشتہ برس 23 مارچ کو اسمبلی میں بتایا تھا کہ ریاست میں 5000 سکول ایسے ہیں جن میں طلباء کی تعداد 50 سے زیادہ نہیں ہے۔ تعلیم کے امور کے ماہرین کا خیال ہے بچوں کے سرکاری سکولوں سے دوری اختیار کرنے کی سب سے بڑی وجہ وہاں بنیادی سہولیات کا فقدان ہے۔ یہی بات گزشتہ برس کنٹرولر اینڈ اڈیٹر آف جنرل( سی اے جی) نے اپنی رپورٹ میں کہی تھی۔