نمل ڈیم کیلئے میانوالی انتظامیہ توجہ کرے اور کالا باغ ڈیم
میرے گائوں موسیٰ خیل ضلع میانوالی میں ایک بہت اہم جگہ ہمارے پڑوس میں پہاڑی کے پیچھے نمل ڈیم ہے۔ یہ ہمارے گائوں کی زمینوں کے لئے بارشی پانی کو سٹور کر کے ایک چھوٹی سی نہر کی صورت وقت پر چھوڑا جاتا تھا۔ اسے مچھلی ٹھیکیدار کو میانوالی ضلعی انتظامیہ کی طرف سے دے دیا گیا ہے۔ اس طرح کسانوں اور زمینداروں کو کروڑوں کا نقصان ہو رہا ہے۔ اس کی تفصیل آگے چل کر ہو گی۔ اب اس کے ساتھ عمران خان نے نمل یونیورسٹی بنائی ہے۔ امید ہے کہ پچاس ساٹھ سال میں ان ویرانیوں کے اندر رونق آ جائے گی۔ اس کے آس پاس دور دور تک آبادی نہیں ہے۔ اس یونیورسٹی کی اہمیت سے انکار نہیں ہے۔ مگر میانوالی کے غریب اور بدنصیب لوگوں کی ضرورتیں بہت معمولی ہیں۔ اس صورتحال میں غیرمعمولی معرکہ آرائی کرنا غیرسیاسی کارروائی ہے۔ میں نے عمران سے مل کر بھی بات کی اور کالم لکھے۔ وہ ناراض بھی ہوا اور برادرم ارشد خان نیازی کے بیٹے کے ولیمے میں ایک ’’خواہ مخواہ‘‘ قسم کے پٹھان ممتاز خان نیازی نے مجھے روک لیا اور کہا کہ تم میانوالی کے ہر بڑے اور اچھے آدمی کے خلاف بات کرتے ہو۔ اور اس حوالے سے پہلا نام اس نے جنرل اے اے کے نیازی کا لیا جس نے ڈھاکہ پلٹن میدان میں بھارتی جرنیل اروڑہ سنگھ کے آگے ہتھیار ڈالے تھے۔ وہ ممتاز خان کا ہیرو ہے اور میں نے لکھا تھا کہ کاش وہ نیازی نہ ہوتا یا میں نیازی نہ ہوتا۔ اس نے دوسرا نام مولانا عبدالستار خان نیازی کا لیا۔ وہ میرے دادا کے بیٹے بنے ہوئے تھے۔ ان کے لئے میں نے ایسے کالم لکھے جس کے لئے انہوں نے خوش ہو کر وہ کالم سارے پاکستان میں تقسیم کئے۔ وہ مجاہد ملت تھے۔ ان کی زبان سے میں نے خود سنا تھا کہ میں لیلائے وزارت کو ٹھوکر مارتا ہوں۔ پھر انہوں نے عمر کے آخر میں ایک معمولی سی وزارت قبول کر لی۔ میں نے ان کے اس اقدام کی مخالفت کی جس سے ان کی سیاسی عاقبت تباہ ہو گئی۔ عمران خان سے مجھے اختلاف ہے۔ وہ روائتی سیاستدان بن گیا ہے اور اس طرح وہ نواز شریف اور ’’صدر‘‘ زرداری سے مختلف نہیں ہے۔ وہ اتنا تنگ دل ہے کہ اس نے میرے اس جملے کا برا منایا تھا۔ ’’عمران نہ میرا دوست ہے نہ میرا لیڈر ہے مگر میرا بھائی تو ہے۔‘‘ اب ممتاز نیازی نے میرے ساتھ جس طرح جھگڑا کیا تو وہ بھی عمران جیسا ہے۔ اس نے اتنی بھی حیا نہ کی کہ میں بھی ارشد نیازی اور شعیب نیازی کا مہمان ہوں۔ میں اس موقع پر کسی ہنگامے کو بڑھانا نہیں چاہتا تھا۔
میں نمل ڈیم موسیٰ خیل کی بات کر رہا تھا اور اس سے دھیان کالا باغ ڈیم کی طرف چلا جاتا ہے۔ وہ میرے ضلع میانوالی میں ہے۔ نمل ڈیم کی کہانی کالا باغ ڈیم کی کہانی کا خلاصہ ہے۔ گائوں میں موسلا دھار بارشیں ہوتی تھیں اور ہوتی ہیں۔ اس وقت زمینوں کو پانی دینے کا وقت نہ ہوتا تھا تو یہ پانی بہہ جاتا تھا۔ نقصان بھی کرتا تھا اور ضائع ہو جاتا تھا۔ لوگوں کو کچھ سمجھ نہ آتا تھا کہ کیا کریں۔ انگریزوں کی حکومت تھی۔ ہم ان کے غلام تھے۔ ہم آج بھی غلام ہیں۔ مگر معذرت کے ساتھ عرض ہے کہ انگریز اپنے غلاموں کی ضرورتوں اور فلاح و بہبود کا خیال رکھتے تھے۔ قانون کی حکمرانی تھی۔ انصاف بھی سب کے لئے برابر تھا۔ آج بھی بہت بڑے بوڑھے انگریزوں کو اس حوالے سے یاد کرتے ہیں ورنہ ان انگریزوں سے نفرت ہمارے ایمان کا حصہ تھا۔ ایک خرابی بڑی تھی کہ انگریز ہمارے اثاثے اور دولت باہر اپنے ملک انگلستان (یورپ) میں لے گئے۔ تو آج کے اپنے حکمران بھی ہمارے اثاثے اور دولت لوٹ کر باہر لے جا رہے ہیں؟ انگلستان(یورپ) کے بینکوں میں ہمارے کرپٹ لوگوں کے اربوں ڈالر بھی کھربوں روپے میں پڑے ہیں۔ مگر انگریزوں نے بہت کچھ لوگوں کے فائدے کے لئے بھی کیا۔ جو بلڈنگیں اور سڑکیں انہوں نے بنائیں۔ وہ اب تک قائم دائم اور شکوہ و جلال کے ساتھ موجود ہیں۔ صرف لاہور میں ہائی کورٹ اورگورنمنٹ کالج کی بلڈنگ دیکھ لیں۔ اس کے بعد جو ہمارے ’’آزاد‘‘ پاکستان میں حکمرانوں نے ٹھیکے پر بلڈنگیں بنائیں ان کا حال دیکھیں۔ کسی کالج کی بلڈنگ گورنمنٹ کالج لاہور جیسی نہیں ہے۔ اور اس عمارت کو ڈیڑھ سو سال ہو گئے ہیں۔ دور نہ جائیں میانوالی میں ڈپٹی کمشنر کی رہائش گاہ دیکھ لیں۔ یہاں بڑے سے بڑے امیر کبیر آدمی کا گھر ایسا نہیں ہو گا۔ انگریز ڈی سی یہاں عیاشی کرتے تھے۔ آج انگریز بننے کے احساس کمتری میں مبتلا کالے صاحب بھی اسی گھر میں عیش کرتے ہیں۔ غلامی آخر غلامی ہے۔ خلیل جبران نے کہا ہے کہ زنگ آلود بیڑیاں اتار کر نئی چمکدار بیڑیاں پہنا دی جاتی ہیں اور اسے آزادی کا نام دے دیتے ہیں۔ انگریزوں کے زمانے میں نمل ڈیم موسیٰ خیل بنایا گیا۔ یہاں جمع کئے گئے بارشی پانی کو ایک بہت چھوٹی سی خوبصورت آبشاروں والی نہر بھی شہر کے کنارے پر بنا دی گئی۔ سب زمینوں کو سیراب کرنے کے لئے اس نہر سے ایک نالا (مائنر) کے نام سے بنایا گیا۔ میں سوچتا ہوں کہ پورے ملک میں اس طرح کے چھوٹے چھوٹے کئی ڈیم بنائے جا سکتے ہیں۔ انگریزوں نے کچھ اور بھی ایسے ڈیم بنائے ہوں گے مگر میرے علم میں نہیں ہے کہ پاکستان بننے کے بعد سیاستدانوں حکمرانوں اور افسروں نے کوئی چھوٹا ڈیم ہی بنایا ہو۔ کالا باغ ڈیم کے لئے سیاستدانوں نے خواہ مخواہ کی مشکلات پیدا کر رکھی ہیں۔ ہر ملک میں ایسے منصوبے بنتے ہیں تو کئی لوگوں کو تکلیفیں برداشت کرنا پڑتی ہیں مگر ملک کے وسیع تر مفاد کے لئے نقصان اور مشکل برداشت کی جاتی ہے بلکہ قبول کر لی جاتی ہے۔ مگر اسفند یار ولی اور سندھ کے قوم پرست سیاستدان اس ٹیکنیکل معاملے کو سیاسی بنا رہے ہیں۔ جبکہ بھارت نے کئی ڈیم کشمیر میں ہمارے پانیوں پر بنا لئے ہیں۔ پانی سمندر میں گر جائے مگر لوگوںکے کام نہ آئے۔ ڈیم قوموں کی خوشحالی اور سلامتی کے لئے ضروری ہیں۔
یہ بتانا مقصود ہے کہ کالا باغ ڈیم میں خواہ مخواہ رکاوٹیں ڈالی جا رہی ہیں تو چھوٹے سے نمل ڈیم موسیٰ خیل کو بھی برباد کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ کئی سالوں سے نمل ڈیم کے لئے کوئی مرمت اور دیکھ بھال کا کام نہیں ہوا۔ نمل ڈیم میں بارشی پانی کی وجہ سے مٹی بھر گئی ہے۔ اب ڈیم کی حالت آدھی بھی نہیں رہ گئی۔ میرا یقین ہے کہ ڈی سی او چاہے تو اپنے ضلع کو جنت بنا سکتا ہے۔
اور اس ضلعی انتظامیہ نے یہ ظلم کیا ہے کہ صرف اریگیشن کے لئے مخصوص ڈیم کو کاروباری معاملات کے لئے ناجائز طور پر استعمال کرنا شروع کر دیا ہے۔ دو سال قبل ضلعی حکومت میانوالی نے ایک مچھلی ٹھیکیدار کو 36 لاکھ کے لئے تین سال کا ٹھیکہ دے دیا ہے۔ اب وہاں ان لوگوں کا قبضہ ہے اور علاقے میں کروڑوں کا نقصان ہو رہا ہے۔ اس پہاڑی علاقے میں آبپاشی کا واحد ذریعہ نمل ڈیم ہے۔
میں ضلعی انتظامیہ سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ انہوں نے اس معاملہ میں علاقے کے شرفا سے مشورہ کیا تھا۔ ضلعی صدر کسان بورڈ ڈاکٹر حاکم خان اور سیکرٹری جنرل مولوی عظمت اللہ خان نے مجھ تک یہ بات پہنچائی ہے۔ میری التماس ہے کہ مچھلی ٹھیکہ فوری طور کینسل کیا جائے اور چند لاکھ کی حقیر رقم کے لئے ہزاروں کسانوں اور زمینداروں کے لئے روزگار اور پورے سال کی محنت اور روزگار کو برباد ہونے سے بچائیں۔ نمل ڈیم موسیٰ خیل اور کالا باغ ڈیم کے لئے میانوالی انتظامیہ اور سیاستدان خصوصی دلچسپی لیں۔ فی الحال نمل ڈیم موسیٰ خیل پر توجہ دی جائے۔ شہباز شریف سے خاص طور پر درخواست ہے یہ میرا گائوں ہے۔ میں ذاتی طور پر اور اہل علاقہ اجتماعی طور پر شکر گزار ہوں گے۔