• news

سیاسی پناہ کے متلاشی ہزاروں افراد لندن کی بسوں میں رات گزارنے پر مجبور

لندن (بی بی سی ) ساری رات بس میں گزارنا بدقسمتی کی ایک نشانی لگتی ہے لیکن لندن میں کچھ لوگوں کی قسمت میں ایسا لکھا ہوتا ہے جو انھیں برداشت کرنا پڑتا ہے۔سیاسی پناہ کے متلاشی ہزاروں افراد لندن کی بسوں میں رات گزارنے پر مجبور ہیں۔ رات کے دو بجے ہیتھرؤ ایئرپورٹ بالکل خالی پڑا ہے۔ وہاں موجود کچھ لوگوں میں سے ایک سیاسی پناہ کی تلاش میں آئے احمد بھی ہیں ،انھوں نے اپنے آپ کو ایک بڑے کینوس کے کوٹ میں لپیٹ رکھا ہے ، احمد 2002ء میں گجرات میں ہندو مسلم فسادات میں اپنی جان بچانے کے لئے لندن آئے تھے، احمد اپنا سفر تقریباً رات کے 11 بجے لندن کے مرکز لیسٹر سکوائر سے شروع کرتے ہیں، جو کہ رات کو بھی لوگوں سے بھرا رہتا ہے۔یہ دوسروں سے پوشیدہ رہنے کی ایک بہترین جگہ ہے۔ وہ سیاحتی ویزا پر لندن آئے اور ہیتھرؤ اترتے ہی سیاسی پناہ کی درخواست دے دی جو ناکام ہو گئی۔ احمد کی اپیل بھی مسترد کر دی گئی اور اسے کہا گیا کہ وہ واپس انڈیا چلا جائے۔ لیکن انھوں نے چپ چاپ سسٹم سے باہر نکلنے کو ترجیح دی وہ ادھر ادھر سڑکوں اور گلیوں میں سونے لگے۔ کبھی دروازوں کے سامنے اور کبھی کچرے کے ڈبوں کے پیچھے اور کبھی کبھار غریبوں کے لیے بنائے گئی پناہ گاہوں میں۔ ایک دن ان کو کسی نے بس کا مشورہ دیا اور اب گذشتہ ساڑھے تین سال سے وہ رات کی بسوں میں ہی سو رہے ہیں۔ احمد ان ہزاروں افراد میں سے ایک ہیں جن کی یا تو پناہ کر درخواستیں نامنظور ہو چکی ہے یا پھر وہ اپنی اپیلوں کا انتظار کر رہے ہیں۔ اور وہ لندن میں اس امید پر ادھر ادھر گھومتے پھرتے رہتے ہیں کہ شاید ان کی تقدیر بدل جائے۔ ان کی تعداد کے متعلق درست اندازہ تو نہیں کیونکہ ریڈار سے ہٹ جانے والے لوگوں کے متعلق پتہ چلانا بہت مشکل ہے۔ گذشتہ برس ایک رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ ہوم آفس کو اس بات کا بالکل اندازہ نہیں ہے کہ جن 175,000 افراد کو کہا گیا کہ وہ ملک چھوڑ جائیں کیا وہ اب تک یہیں ہے یا ملک چھوڑ گئے ہیں۔ لیکن لندن میں زندہ رہنے کی جستجو میں وہ بالکل اکیلے بھی نہیں ہیں۔ کئی تنظیمیں تارکینِ وطن اور پناہ کے متلاشی افراد کے لیے کام کر رہی ہیں۔ وہ کبھی انھیں کچھ پیسے دے دیتی ہیں، کبھی قانونی مشورہ، کبھی گرم کھانا یا پھر ان کے نہانے کا بندوبست کر دیتی ہیں۔ احمد نے کہا تھا ’میں نے واپس نہیں جا سکتا۔ اپنے ملک میں میرے لیے زیادہ خطرہ ہے، زیادہ تکلیف ہے۔ اس لیے میں واپس انڈیا جانے کے لیے تیار نہیں ہوں۔’اگر میری حالت اور بری ہو گئی تو میرے پاس اپنے آپ کو مارنے کے علاوہ کوئی اور چارہ نہیں ہو گا۔لیکن وہ کب تک ایسا کرتے رہیں گے؟جب تک احمد انڈیا واپس جانے کا فیصلہ نہیں کر لیتے یا پکڑے نہیں جاتے اس وقت تک تو ان کو بسوں میں ہی سونا پڑے گا۔

ای پیپر-دی نیشن