• news

شہید بھٹو کے ساتھ چند لمحات

پہلے سول چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر بن کر جب بھٹو صاحب لاہور آئے تب میری گورنر ہائوس لاہور میں ان سے علیحدگی میں تفصیلی گفتگو ہوئی۔ میرے چند سوالوں کے جواب میں انہوں نے غور سے مجھے دیکھا انکی آنکھوں میں جو چمک مجھے نظر آئی وہ میں آج تک بھول نہیں پاپا ہوں۔ میرے پہلے سوال کے جواب میں انہوںنے فرمایا تھا۔ کہ یہ درُست ہے کہ جس ملک میں جمہوریت ہو اور بہت ساری سیاسی جماعتیں اپنے اپنے منشور کو عوام کے سامنے رکھ کر اقتدار حاصل کرنے کی متمنی ہوں، وہاں نامزدگیوں کے ذریعہ کوئی پارٹی مخلص کارکن حاصل نہیں کرسکتی لیکن چونکہ پیپلز پارٹی کو قائم ہوئے ابھی دن ہی کتنے ہوئے ہیں، ملک جن حالات سے گزر ا ہے۔ ایک لمحے کی فرصت نہیں۔ پاکستان کی تنظیم نو کرنا ہے۔ آئین سازی کرنی ہے، معیشت کو درست خطوط پر استوار کرنا ہے اس وقت نامزدگیوں کے علاوہ اور کون سا راستہ تھا لیکن انشاء اللہ بہت جلد ہم پارٹی میں الیکشن کروائیں گے۔ ہمیں پارٹی کو بھی مضبوط بنیادوں پر قائم کرنا ہے!میرے دوسرے سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ لاہور کے دانشوروں کی یہ تجویز بہت اچھی ہے کہ پارٹی کے کارکنوں کی سیاسی، نظریاتی تربیت کیلئے لیکچرز کا انتظام کیا جائے اس کیلئے میں آپ سے اتفاق کرتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ آپ یہ کام بہ احسن طریق کر پائیں گے میری تیسری بات کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ انشاء اللہ جلد میں اپنی تصانیف کی اشاعت کے سلسلے میں آپ سے رابطہ کروں گا۔اس ملاقات میں جو گفتگو ہوئی تھی اُسکی روشنی میں ہم نے دو کام کئے پہلا کارکنوں کی سیاسی تعلیم کیلئے لیکچرز کا اہتمام اس کیلئے رضاکارانہ طور پر جناب محمد صفدر میر، ظہیر کاشمیری اور نصیر انور صاحب پر مشتمل ایک پینل بنا دیا گیا جس کی یہ ذمہ داری تھی کہ وہ ہر ہفتہ کارکنوں کو لیکچر دینگے۔ لیکچرز کیلئے ہم نے لاہور ٹائون ہال ہر اتوار تین گھنٹے کیلئے حاصل کرنے کی کوشش کی لیکن پارٹی کے اندر سے مزاحمت کے سبب ہم ایسا نہیں کرسکے۔ فنڈز ہمارے پاس تھے نہیں کہ ہم کسی ہوٹل میں اہتمام کرتے۔ ہمارا دوسرا کام پارٹی کے اندر ’’خود احتسابی کا عمل‘‘ شروع کرنا تھا جب نامزد پارٹی عہدے داروںکی شکایت آنا شروع ہوئیں تو میں نے اپنے حلقے کرشن نگر میں پاکستان کی تاریخ کا پہلے’’خود احتسابی‘‘ کے جلسے کا اہتمام کیا۔ یہ جلسہ افتخار تاری صوبائی وزیر کی زیر صدارت عمر روڈ کرشن نگر میں منعقد ہوا۔ اسکے ایجنڈا کا علم خود افتخار تاری کو بھی نہیں تھا۔ جب جلسہ شروع ہوا تو میں نے ابتدائی کلمات میں اس جلسے کا مقصد بیان کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی خالق جماعت مسلم لیگ کے کارکن اقتدار کے بعد آج مسلم لیگ کی قیادت کی نااہلی کی وجہ سے فخر کی بجائے شرمندگی محسوس کرتے ہیں ہم نہیں چاہتے کہ پیپلز پارٹی بھی ایسے ہی حالات کا شکار ہو جائے چنانچہ سب سے پہلے کرشن نگر پارٹی کے نامزد صدر شیخ فیاض کے بارے میں انکے جنرل سیکرٹری نے الزامات کی تفصیل حاضرین کو سنائی اس جلسے میں جنہیں شکایت تھی اور جن سے شکایت تھی وہ سب آمنے سامنے تھے۔ شیخ فیاض صاحب کو یہ بات ناگوار گزری اور انہوں نے وہاں شور مچایا کہ یہ پارٹی کا جلسہ نہیں ہے۔ ہم نہیں مانتے اور نہ ہم جواب دہ ہیں وغیرہ افتخار تاری صاحب نے سختی سے انہیں بٹھا دیا لیکن جب شکایت کنندہ افراد نے الزامات کی تائید کر دی تو شیخ فیاض اپنے ساتھیوں کے ساتھ وہاں سے بھاگ گئے ان دنوں حنیف رامے اور غلام مصطفی کھر کے درمیان اقتدار کی رسہ کشی جاری تھی تاری مرحوم کھر گروپ کا حصہ تھے فیاض سیدھے رامے صاحب کے پاس پہنچے اور خود احتسابی کے جلسے کو رامے، کھر چپقلش سے ملا دیا۔ افتخار صاحب رامے صاحب کے سیکرٹری تھے اور پارٹی میں افتخار فتنہ مشہور تھے ان کے ایما پر کرشن نگر میں شیخ فیاض نے ایک جلسہ عام کرنے کا اعلان کیا میں نے حنیف رامے صاحب سے رابطہ کیا اور انہیں بتایا کہ یہ خود احتسابی کا جلسہ پارٹی کے وسیع تر مفاد میں منعقد کیا گیا تھا اگر آپ اُس وقت دستیاب ہوتے تو میں یہ جلسہ آپکی صدارت میں کرواتا اب اگر آپ شیخ فیاض کے جلسہ کی صدارت کر رہے ہیں تو ہمیں خوشی ہوگی اگر الزامات لگانے والوں کو بھی موقع فراہم کریں تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے۔ ہمیں حیرت ہوئی جب جلسہ عام کا کارڈ دیکھا جو شیخ صاحب کے گھر کے اندر ہو رہا تھا اور داخلہ بذریعہ کارڈ رکھا گیا تھا گویا پارٹی مفاد میں ’’خود احتسابی‘‘ کے اس جلسے کو رامے، کھر چپقلش کی نذر کردیا گیا۔ ہم نے تمام تفصیل بھٹو صاحب کو تحریری طور پر روانہ کر دی اور اسکی ایک نقل رامے صاحب کو بھی بھجوا دی۔ بھٹو صاحب تک روداد پہنچی یا نہیں مجھے معلوم نہ ہوسکا۔ ذوالفقار علی بھٹو صاحب سے پھر ایک اور مختصر ملاقات ہوئی انہیں صورتحال سے آگاہ کیا۔ اس طرح پارٹی میں الیکشن اور خود احتسابی کا عمل شروع ہی نہ ہوسکا۔ بھٹو صاحب کے جلسوں میں جب بھی شرکت کا موقع ملا جو بات بھی ان کے منہ سے نکلتی تھی وہ ہمیں اپنے دل کی آواز لگتی تھی جن دنوں بھٹو صاحب ایوب خان کی کابینہ میں وزیر تھے میں قومی مسائل پر انہیں خط لکھا کرتا تھا شاید ہی میرا کوئی ایسا خط ہو جس کا جواب ان کی طرف سے نہ آیا ہو۔ خط کے جواب ہمیشہ وہ خود لکھا کرتے تھے۔ اگر کبھی کسی اور نے لکھا بھی تو اس پر دستخط انگریزی میں ان ہی کے ہوتے تھے۔ یہ خطوط آج بھی میرے پاس محفوظ ہیں ایک اہم بات جو بہت کم لوگ جانتے ہیں وہ یہ ہے کہ فخر زمان صاحب کے توسط سے مجھے بے نظیر صاحبہ نے بھٹو صاحب کی تمام کتابیں چھاپنے کی اجازت دی جس کے نتیجہ میں بھٹو صاحب کی 23 کتب آج بازار میں دستیاب ہیں لیکن ایک بڑا کام جو ابھی تک مکمل نہیں ہوسکا وہ ہے ان کی تقریروں پر مشتمل 350 کیسٹوں کا ریکارڈ جو ٹرانس کرائب ہوچکے ہیں کمپوز بھی ہوگئے لیکن چھپ نہیں سکے اگر چھپ جاتے تو سینکڑوں صفحات پر مشتمل بڑے سائز کی تین چار جلدیں تیار ہو جاتیں۔ اسکے علاوہ دوسری اسلامی سربراہی کانفرنس جو لاہور میں منعقد ہوئی تھی۔ اس کا ریکارڈ بھی 50 کیسٹوں میں میرے پاس محفوظ ہے۔ یہ کام مکمل ہو جائے تو پاکستان کی تاریخ کا ایک روشن باب بن سکتا ہے۔ ضیاء الحق نے چھوٹ کے اس پلندے کا نام وائٹ پیپر رکھاتھا۔ اُس وقت میں نے عہد کیا تھا کہ اگر رب العزت نے مجھے موقع دیا تو میں ضیاء الحق کی زندگی میں اسکے دور اقتدار میں اسکے اور اسکے وزیروں کے کرتوتوں پر مبنی ’’مارشل لاء کا وائٹ پیپر‘‘ شائع کروں گا اللہ کے فضل و کرم سے مجھے یہ توفیق ہوئی اور میں نے ستار طاہر مرحوم سے ایک ایسا مارشل لاء کا وائٹ پیپر مرتب کروایا جس کے سرورق پر ہمارا یہ دعویٰ چھپا ہوا ہے کہ اس وائٹ پیپر میں چھپنے والا ایک ایک لفظ سچا اور ناقابل تردید ہے۔

ای پیپر-دی نیشن