• news

یمن کی غیر یقینی صورتحال میں پاکستان کو متنازع نہ بنایا جائے

شام میں جاری خانہ جنگی ہوئی جس میں گزشتہ چار برسوں کے دوران لاکھوں لوگ بے گھر ہو کر اردن و ترکی میں قائم کئے گئے مہاجر کیمپوں میں پناہ لینے پر مجبور ہو چکے ہیں۔  اب اچانک یمن میں پھوٹ پڑنے والے فسادات ہیں جس نے صرف عرب دنیا کو ہی مزید مشکلات سے دوچار نہیں کیا اس صورتحال سے ہر مسلمان پریشان ہے۔ کوئی اسے ایران و سعودی عرب کا تنازع قرار دے رہا ہے تو کسی کو اس میں امریکہ و مغرب کی شرارت نظر آرہی ہے لیکن تکلیف دہ پہلو یہ ہے کہ اس ساری صورتحال میں پاکستان کو متنازع بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ یوں ظاہر کیا جا رہا ہے کہ جیسے پاکستان دو مسلمان ممالک کے درمیان جاری سرد جنگ میں ایک ملک کے ساتھ شامل ہو کر دوسرے مسلمان ملک کے خلاف جنگ میں کودنے کے لئے کمر کس چکا ہے۔ حالانکہ بڑی واضح سی بات ہے کہ سعودی عرب ہو یا دیگر اسلامی ممالک سب کے ساتھ پاکستان کے تعلقات برادرانہ ہیں۔ ہاں اس فرق کے ساتھ کہ حرمین شریفین کی موجودگی سعودی عرب کی اہمیت کو دوچند کر دیتے ہیں۔ تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ سعودی عرب کی سلامتی کو درپیش خطرہ کو دنیا میں بسنے والا کوئی بھی مسلمان قبول نہیں کرے گا مگر کیا واقعی اس وقت سعودی عرب کی سلامتی کوخطرات لاحق ہیں؟ ہاں اگر یمن میںداخلی بدامنی کے اثرات وہاں سے سعودی عرب کی طرف منتقل ہوئے (جس کے فی الحال امکانات دکھائی نہیں دے رہے) توپھر پاکستان کیا کسی بھی اسلامی ملک کی حکومت کو نہ چاہتے ہوئے بھی عوامی ردعمل سے بچنے کیلئے سعودی عرب کا ساتھ دینے کا اعلان کرنا پڑ یگا جبکہ پاکستان کی حکومت کا ابتدائی بیان بھی یہی تھا کہ سعودی عرب کے تحفظ کیلئے ہر طرح کی امداد دی جائیگی۔ پاکستان میں جاری بحث کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ایک غیر ملکی خبر رساں ادارے نے پاک فوج کی سعودی عرب میں موجودگی کی خبر اڑا دی جسے پاکستان میں بعض ٹیلی ویژن ’’ٹاک شوز‘‘ نے بحث کا موضوع بنا کر غلط فہمیوں کو مزید ہوا دینے کی کوشش کی۔ جس پر سعودی عرب کے علاوہ آئی ایس پی آر کو بھی وضاحت کرنا پڑی کہ پاک فوج کی سپیشل فورسز سعودی فورسز کے ساتھ مل کر جنگی مشقوں میں مصروف ہیں جو دس سال سے جاری الصمصام نامی جنگی مشقوں کا حصہ ہیں‘ جس کا یمن میں حوثی باغیوں سے کوئی تعلق نہیں۔ ان مشترکہ جنگی مشقوں کامقصد مشکل پہاڑی علاقوں میں جنگ کی عملی تربیت حاصل کرنا ہے جس میں سعودی عرب کی طرف سے رائل سعودی لینڈ فورسز‘ آرمی ایوی ایشن اور رائل سعودی ائرفورس جبکہ پاک فوج کے 292 افسر وجوان حصہ لے رہے ہیں۔ ان مشقوں کا سلسلہ 19 مارچ سے جاری ہے‘‘ ابھی مذکورہ وضاحت کو جاری ہوئے ایک ہی روز گزرا تھا کہ سی این این نے ٹی وی پر نشر کرنے کی بجائے اپنی ویب سائٹ پر خبر جاری کر دی کہ خبر کی تفصیل میں بتایا گیا کہ پاکستانی ائرفورس کے 15 طیارے سعودی عرب کی طرف سے یمن پر بمباری میں حصہ لے رہے ہیں۔ یہی وہ وجوہات ہیں جن کی بنا پر کچھ تجزیہ نگار یمن کی صورتحال کو عالمی قوتوں کی طرف سے کھیلے جانیوالے کسی بڑے کھیل کا حصہ قرار دے رہے ہیں۔ ورنہ مغربی میڈیا کی طرف سے یمن اور سعودی عرب کے علاقائی تنازع میں پاکستان کو گھسیٹنے کی کوئی وجہ سمجھ نہیں آتی۔ یہ سوال بھی بجا طور پر اٹھایا جا رہا ہے کہ حوثی باغیوں کے پاس ایسے جدید اور خطرناک ہتھیار کیسے پہنچے جنکے ذریعے انہوں نے آناً فاناً حکومتی مشینری کو مفلوج کرکے حکمرانوں کو ملک سے فرار ہونے پر مجبور کر دیا۔ یقیناً حوثیوں کو باہر سے کسی تیسرے ملک کی مدد حاصل رہی ہو گی۔ یمن کے 1925 ء سے جاری تنازعات 1932 ء کی باہمی جنگ کے بعد یمن کے بادشاہ سے ہونیوالا امن معاہدہ بعد ازاں صرف 2 برسوں بعد پھوٹ پڑنے والے جنگ کے شعلوں اور ماضی قریب میں ہر دو دہائیوں کے بعد سرحدی کشیدگی کو مدنظر رکھیں تو موجودہ کشیدگی سے متعلق بھی کہا جا سکتا ہے کہ جلد ہی حوثی قبائل اور سعودی عرب کسی پرامن حل کے قریب پہنچ جائینگے لیکن اس سے قبل سعودی عرب کو اطمینان دلایا جانا ضروری ہے کہ ایک تو حوثی باغی حکوت کیخلاف مسلح بغاوت کی بجائے بات چیت کے ذریعے اپنے جائز مطالبات منوانے کی راہ اختیار کرینگے۔ دوسرا حوثی سرحد پار کر کے سعودی عرب میں انتشار پھیلانے کی جسارت نہیں کرینگے۔ کیونکہ مارچ 2012 ء میں امریکی اخبار نیویارک ٹائمز‘ امریکی خفیہ ادارے سے منسلک ایک افسر کے حوالے سے خبر دے چکا ہے کہ یمن کے راستے خلیج سے تعلق رکھنے والے ایک اہم ملک کی طرف سے فراہم کردہ Pk-47 رائفلوں کی بڑی تعداد سعودی عرب سمگل کی جا رہی ہے۔ علاوہ ازیں جنوری 2013 ء میں سی این این پر نشر کی جانیوالی یہ خبر ابھی بھی انٹرنیٹ پر موجود ہے جس میں سمندری راستے حوثیوں کیلئے بھیجے جانیوالے اسلحہ کی ایک بڑی کھیپ سعودی نیوی نے پکڑ لی تھی۔ اور سعودی عرب کو یہ احساس بھی ہے کہ اسکی فوج کیلئے یمن سے ملنے والی دشوار گزار 1700 کلومیٹر طویل سرحدی پٹی کی نگرانی ممکن نہیں جہاں سے نہ صرف اسلحہ بلکہ تربیت یافتہ لڑاکا افراد بھی سعودی علاقوں میں منتقل کئے جا سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یمن میں باغیوں پر قابو پانے اور حکومت کی بحالی کیلئے سعودی عرب نے عرب اتحادی ائرفورس کے ذریعے فوری اور شدید ردعمل کا اظہار کیا ہے۔ تاہم یہ بات خوش آئند ہے کہ ایران نے یمن تنازع کے حل کیلئے سعودی عرب سے بات چیت کا عندیہ دیا ہے جس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے پاکستان کو ایران و سعودی عرب کے مابین مکالمہ کیلئے فوری طور پر ایک وفد تہران بھی روانہ کرنا چاہئے تاکہ شام‘ عراق و لیبیا کی طرح یمن میں تیزی سے پھیلتی ہوئی آگ پر قابو پایا جا سکے۔ تاہم یمن کے مسئلہ پر سعودی عرب کی طرف سے مدد کی اپیل پر پاکستان کی طرف سے لاتعلقی کسی طور بھی ممکن نہیں۔ ہاں اگر اپوزیشن کی چند جماعتیں چاہتی ہیں کہ اس مسئلے پر پارلیمنٹ میں بحث کی جانی چاہئے تو اس کا یہی مطلب ہے کہ حکوت یک طرفہ فیصلہ کرنے کی بجائے اپنے فیصلوں میں انہیں شریک کرے تو یہ مطالبہ غلط نہیں۔ حکومت اتنے اہم مسئلے پر سب کو ساتھ لے کر چلے۔ اگر حکومت چاہتی ہے کہ سعودی عرب کی درخواست پر فوج بھیجنا ناگزیر ہے تو یقیناً حکومت وہی فیصلہ کرے گی جو ملک کے وسیع تر مفاد میں ہو گا۔

خالد بیگ

خالد بیگ 

ای پیپر-دی نیشن