• news

شہید بھٹو کی عوامی خدمات

4 اپریل کا دن نہ صرف پاکستان پیپلزپارٹی بلکہ پوری پاکستانی قوم کیلئے انتہائی اذیت‘ دکھ اور افسوس کے لمحات کی یاد تازہ کرتا ہے جب ایک فوجی آمر نے نہ صرف ایک منتخب جمہوری حکومت اور پاکستان کے پہلے منتخب وزیراعظم کا تختہ الٹا بلکہ ملک میں مارشل لاء نافذ کرکے اس کیخلاف مقدمہ دائر کیا اور ایک جانبدار عدالت نے ذوالفقار علی بھٹو شہید کو پھانسی کی سزادی‘ لیکن بھٹو شہید عزم و استقلال کا ایسا کوہ گراں تھے کہ انہوں نے اس سزا کیخلاف رحم کی اپیل دائر کرنے کو سختی سے مسترد کر دیا اور پوری جوان مردی کے ساتھ موت کو گلے لگا کر پوری قوم اور بالخصوص پاکستان پیپلزپارٹی کے ہر کارکن کیلئے یہ ایک رہنما اصول پیش کیا کہ وہ ملک کی سلامتی و بقاء اور اصولوں کی خاطر کسی بڑی سے بڑی قربانی سے بھی دریغ نہ کریں اور اصولوں پر سودے بازی کی پالیسی کو سختی سے مسترد کر دیں۔ملک دولخت ہوا تو موجودہ پاکستان میں پی پی پی کی قطعی اکثریت کی بنیاد پر اقتدار اسے سونپا گیا اور اس طرح ذوالفقار علی بھٹو شہید نے وزارت عظمیٰ کا منصب بھی سنبھالا۔ بھٹو مرحوم نے دسمبر 1971ء میں اقتدار سنبھالنے کے بعد 1977ء میں عام انتخابات کے انعقاد کا اعلان کرکے جمہوریت کی جانب مثبت پیش رفت کا ثبوت دیا۔ اپنے دور اقتدار میں انہوں نے عوام کے ساتھ اپنے انتخابی منشور میں کئے گئے وعدوں کو جس طرح عملی جامہ پہنایا اور اپنے وعدوں کی تکمیل کی‘ اس کی مثال پاکستان کی پوری سیاسی تاریخ میں نہیں ملتی۔ یہ اعزاز بھٹو شہید کو حاصل ہوا کہ انہوں نے پاکستان کو ایک اسلامی اور نظریاتی آئین دیا۔ یہ آئین قومی اسمبلی کی متفقہ منظوری کے بعد نافذالعمل ہوا اور اسے بجا طورپر ایک اسلامی جمہوری آئین قرار دیا جا سکتا ہے۔بھٹو شہید کو امت مسلمہ اور عالم اسلام کیخلاف اسلام دشمن طاقتوں کی سازشوں اور خوفناک عزائم کا بھی گہرا ادراک تھا۔ وہ امت مسلمہ کو ایک پلیٹ فارم پر متحد کرنا اور مسلمان ممالک کے درمیان اتحاد و یکجہتی کو فروغ دینا چاہتے تھے۔ چنانچہ اس کیلئے انہوں نے مسلمان ممالک کے رہنمائوں اور حکمرانوں سے وسع تر مشاورت کے بعد پاکستان میں اسلامی کانفرنس کے انعقاد کا بھی اہتمام کیا جس میں کم و بیش تمام مسلمان ممالک کے سربراہوں خاص طورپر سعودی عرب کے حکمران شاہ فیصل‘ لیبیا کے حکمران کرنل قذافی‘ اسی طرح بنگلہ دیش کے مجیب الرحمن نے بھی شرکت کی۔ اس کانفرنس کا مقصد تمام مسلمان ممالک پر مشتمل ایک مضبوط تنظیم کا قیام عمل میں لانا تھا جو امت مسلمہ کیلئے اقوام متحدہ کا کردار ادا کر سکے اور مسلمانوں کے مفادات کا تحفظ کیا جا سکے۔ بھٹو شہید نے سقوط ڈھاکہ کے المیے کو کبھی فراموش نہیں کیا اور بھارت کی طرف سے 1974ء میں ایٹمی دھماکے کے بعد انہوں نے پاکستان کے ایٹمی پروگرام کا آغاز کیا اور اس کیلئے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو تمام ممکنہ مراعات فراہم کرکے انہیں ایٹمی پرگرام کا سربراہ بنایا۔ اس پروگرام کو آگے بڑھانے کیلئے جس مالی امداد کی ضرورت تھی وہ پاکستان کی بساط سے باہر تھی۔ اس کیلئے بردار ملک نے پاکستان کو خصوصی مدد دی اس لئے کہ پاکستان نے بھی اسرائیلی حملے کیخلاف ان کا بھرپور ساتھ دیا تھا۔ بہرحال یہ ایٹمی پرگرام پاکستان کی سلامتی اور بقاء کا ذریعہ ثابت ہوا۔ امریکہ کیلئے یہ پروگرام ناقابل برداشت تھا۔ چنانچہ اس وقت کے امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر نے بھٹو شہید کو دھمکی دی کہ اگر انہوں نے ایٹمی پروگرام بند نہ کیا تو انہیں نمونۂ عبرت بنا دیا جائے گا‘ لیکن بھٹو مرحوم نے اس دھمکی کو مسترد کرتے ہوئے پروگرام جاری رکھا اور پاکستان کو پہلے مسلمان ایٹمی ملک کے اعزاز سے نوازا۔ آج ہماری یہی قوت ہماری سلامتی اور بقاء کی ضامن ہے اور کوئی ملک پاکستان کی طرف میلی آنکھ سے نہیں دیکھ سکتا۔ بھٹو شہد نے اپنے انتخابی منشور میں عوام کے ساتھ روٹی‘ کپڑا اور مکان کا جو وعدہ کیا تھا‘ اس پر بھی انہوں نے مؤثر عملدرآمد کا آغاز کیا۔ انہوں نے نجی بینکوں‘ انشورنس کمپنیوں‘ بڑے بڑے صنعتی و تعلیمی اداروں کو قومی تحویل میں لیکر معاشرے میں دولت کے ارتکاز کو ختم کرنے اور مالیاتی وسائل کی منصفانہ تقسیم کی بنیاد رکھی۔ اس طرح ان اداروں کے ملازمین کو جہاں ملازمت کا تحفظ حاصل ہوا‘ وہاں ان کی آمدن میں بھی اضافہ ہوا۔ بیرونی ممالک میں پاکستانی افرادی قوت کی برآمد کا ایک پروگرام شروع کیا گیا۔ خاص طورپر عرب ممالک میں پاکستان کی افرادی قوت کی برآمد سے لاکھوں افراد کو روزگار کی سہولت میسر آئی اور پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ بیرونی ملکوں سے ترسیل زر 14 ارب روپے سالانہ تک پہنچ گیا جس سے زرمبادلہ کے ذخائر میں قابل قدر اضافہ ہوا۔ نجی شعبہ کے ملازمین کیلئے اولڈ ایج بینیفٹ کی صورت میں پینشن کا پروگرام متعارف کرایا۔ اس طرح نجی شعبہ کے ملازمین کو بڑھاپے میں مالی اعانت حاصل ہوئی۔ افسوس کہ 1977ء کے انتخابات میں دھاندلی کے نام پر اپوزیشن جماعتوں نے جو تحریک چلائی اس نے ایک فوجی آمر کو ایک منتخب جمہوری حکومت کا تختہ الٹنے کا موقع فراہم کر دیا حالانکہ 10 جماعتی اتحاد کے ساتھ مذاکرات کے نتیجے میں مفاہمت کی راہ بھی ہموار ہو گئی تھی اور دونوں کے درمیان امن معاہدہ طے پا گیا تھا۔

چودھری منور انجم

چودھری منور انجم 

ای پیپر-دی نیشن