• news

مرشد و محبوب زندہ تر ڈاکٹر مجید نظامی کی سالگرہ

برادرم سعید آسی نے ڈاکٹر مجید نظامی کے لئے امام صحافت کا خطاب دیا۔ ان کے کالم کا عنوان یہی ہے۔ نظریہ پاکستان ٹرسٹ کے سینکڑوں ہزاروں اجلاسوں میں برادرم شاہد رشید نے انہیں آبروئے صحافت کہا۔ ان کی زندگی میں یہ خطاب ان کے لئے زبان زد عام تھا۔ اب سعید آسی کا خطاب بھی زبان زد عام ہو گا۔ امام صحافت اب پاکستان کی صحافت کا زندہ نشان ہو گا۔ میں انہیں ہمیشہ مرشد و محبوب کہتا ہوں۔ مرشد صحافت بھی ٹھیک ہے مگر امام صحافت اور آبروئے صحافت کا جواب نہیں ہے۔ جب تک پاکستان میں جرأت و بہادری قیادت و ذہانت کا تذکرہ ہو گا تو ہمیں امام صحافت آبروئے صحافت اور مرشد صحافت یاد آئے گا۔ پوری صحافی برادری میں اگر کوئی کسی ایک شخص کے لئے عقیدت اور قیادت کے حوالے سے محبت سے نام لے گا تو صرف مجید نظامی کا لے گا۔ ہماری صحافت میں حمید نظامی کا نام زندہ ہے تو مجید نظامی کا نام زندہ تر ہے۔ یہ اپنے عظیم بھائی کے ساتھ ان کی لازوال محبت اور ان کی راہ صحافت پر استقامت سے چلنے کے مستحکم عزم کی بدولت ہے۔ پھر یہ دولت اتنی بڑھی کہ کوئی مرتبہ ایسا نہیں جو انہیں نہ ملا ہو۔ انہوں ادارت کو صدارت پر ترجیح دی۔ شاہد رشید نے ان کی زندگی ہی میں سالگرہ منانے کا آغاز کر دیا تھا۔ اس کے لئے وہ مشکل سے مانے۔ برادرم فاروق الطاف نے بہرحال سالگرہ منانے کا اعلان کر دیا۔ ڈاکٹر رفیق احمد کی شفقت بھی ہمیشہ شامل حال رہی۔ نظریہ پاکستان ٹرسٹ کے ساتھ ان کی مستقل وابستگی شاہد رشید کے لئے بہت معاون ہے۔ ان کے بعد یہ پہلی سالگرہ تھی جو محبت اور شان و اعزاز کے ساتھ منائی گئی۔ ان کی یاد سے ہمارے دل آباد ہیں۔ بشریٰ رحمان اور تقریباً سب لوگوں نے کہا کہ وہ ہمارے ساتھ یہاں ہم سے بڑھ کر موجود ہیں۔ بیگم صفیہ اسحاق نے اجلاس کے دوران مجید نظامی کے لئے اپنی کتاب تقسیم کی۔ یہ بھی سالگرہ کا تحفہ ہے۔ عائشہ مسعود نے ان کی زندگی میں کتاب لکھی تھی جو بہت پڑھی گئی۔
نظریہ پاکستان ٹرسٹ کے چیئرمین صدر محمد رفیق تارڑ بھی ہمیشہ ہر تقریب کی صدارت کرتے ہیں۔ ڈاکٹر مجید نظامی ہر اجلاس میں موجود ہوتے تھے۔ اب تارڑ صاحب بھی ہر تقریب میں ہوتے ہیں۔ تمام اجلاس بھی اسی جذب و کیفیت میں ہوتے ہیں۔ وہ زندگی میں نہ کبھی جھکے نہ بکے۔ اپنے دل کی اور ایمان و یقین کی رہنمائی میں زندگی بسر کی۔ انہیں اللہ نے بڑی نعمتوں سے سرفراز کیا ہے اور انہوں نے کسی نعمت کو نہیں جھٹلایا۔ سول جج سے سپریم کورٹ کے جج تک وہ دیانت اور دلیری کی مثال ہیں مگر انہوں نے اس کا چرچا نہیں کیا۔ اس دوران وہ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس بھی رہے اور بہت عزت اور مقام پایا۔ پاکستان کے سب سے بڑے عہدۂ صدارت پر فائز ہوئے اور پارلیمانی جمہوریت کے سارے تقاضے پورے کئے۔ وہ انا حیا والے آدمی ہیں۔ وہ جنرل مشرف کے آنے کے بعد بھی صدر رہے۔ کلثوم نواز نے مجھے بتایا تھا کہ ابھی صدر رفیق تارڑ بہت بڑا کام کریں گے۔ انہوں نے نواز شریف اور ان کی فیملی کی جلاوطنی میں مدد کی۔ ان کی سزائوں کو صدر تارڑ نے معاف کیا۔ یہ ایک احسان ہے جو نواز شریف انہیں پھر صدر بنا کر بھی نہیں اتار سکتے تھے۔ وہ ایوان صدر سے استعفیٰ کے بغیر چلے آئے اور صدر مشرف ایک مستقل صدر کے گھر بھی آئے اور انہوں نے کوئی پیشکش قبول نہ کی۔ میرے خیال میں ان کا خیال اپنے دل میں یہ ہو گا میں ابھی ریٹائر نہیں ہوا، اس لئے مجھے کوئی ایسی سہولت قبول نہیں ہے۔ لوگو قدر کرو تارڑ صاحب کی کہ ایسا صدر بھی نہیں آیا جو ایوان صدر کے مالک تھے تو بھی صدر نہیں لگتے تھے۔ جس آدمی نے انہیں صدر بننے کی اپیل کی وہ وزیراعظم ہوتے ہیں تو وزیراعظم سے زیادہ وزیراعظم لگتے ہیں۔ میں ایسے صدر کی بات مانتا ہوں جو ایوان صدر کے باہر آ کے زیادہ ’’صدر‘‘ لگتے ہیں۔ ’’صدر‘‘ زرداری کو کون نہیں جانتا جو پورے پاکستان کو اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر اور برباد کر گئے۔ وہ پورے پاکستان کو اپنا ایوان صدر بنانا چاہتے ہیں۔ تو عام لوگ کہاں جائیں۔ ان کی شہید بیوی کا بیٹا تو پاکستان آنا ہی چاہتا۔ اس کی سیاست دیکھیں کہ وہ اپنی شہید بیوی کو شہید بی بی کہتا ہے۔ اس کے عہد صدارت کا کریڈٹ یہ ہے کہ پانچ سال میں اپنی شہید بیوی اور بی بی کے قاتل گرفتار نہیں ہو سکے۔ نہ مقدمہ چلا۔ ایسا مستقل مزاج شوہر اور صدر میں نے نہیں دیکھا۔ صدارت بھی شہید بیوی کی بدولت ملی اور دولت بھی اسی کی وجہ سے ملی۔
اب ہر کوئی مجید نظامی کے لئے ایک جیسی باتیں کرتا ہے۔ ان کی زندگی ہر زندگی میں شامل ہو گئی ہے۔ جس مرے ہوئے آدمی کی سالگرہ منائی جاتی ہے وہ زندہ تر ہوتا ہے۔ یہ ایک ایسی زندگی ہے جس کو فنا نہیں ہے۔ اب بلہے شاہ کے اس شعر کے معانی سمجھ میں آنے لگے ہیں۔
بلھے شاہ اساں مرنا ناہیں
گور پیا کوئی ہور
شاہد رشید نے آج بھی اسی زندہ جذبے سے ڈاکٹر مجید نظامی کی سالگرہ منائی۔ وہ شاہد سے محبت رکھتے تھے اور ان پر بہت اعتماد کرتے تھے۔ شاہد نے بھی ان کی محبت کو اپنا ایمان بنایا اور کبھی انہیں مایوس نہ کیا۔ ایسے آدمی کی خدمت اور محنت کی بھی ہمیں قدر کرنا چاہئے۔ وہ صدر محمد رفیق تارڑ اور ڈاکٹر رفیق احمد، جسٹس فرخ آفتاب اور فاروق الطاف کا بہت احترام کرتے ہیں اور انہیں ڈاکٹر مجید نظامی کا ہمسفر سمجھتے ہیں۔ یہ ہمسفری ان کی رحلت کے بعد بھی پہلے کی طرح ہے۔ میں نے کہا تھا کہ ہمسفر ہونے کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے ہمسفر کا ہمراز بھی ہو۔
دوسری بات جو میرے ذہن میں ہے کہ دلیر اور دانشور وائس چانسلر ڈاکٹر مجاہد کامران نے ڈاکٹر مجید نظامی کو پنجاب یونیورسٹی کی طرف سے ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری پیش کی ممتاز صحافی مجیب الرحمٰن شامی نے کہا کہ یہ ایک تاریخ ساز واقعہ ہے یہ پنجاب یونیورسٹی اور ڈاکٹریٹ کی ڈگری کا اعزاز ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری کو یہ اعزاز نصیب نہیں ہوا۔ یہ کبھی نہیں ہوا کہ اعزازی ڈگری کے بعد ڈاکٹر کا لفظ کسی کے نام کا حصہ بن گیا ہو۔ ہر کوئی انہیں محبت سے ڈاکٹر مجید نظامی کہتا ہے۔ انہوں نے خود یہ کہہ دیا تھ کہ میں ڈاکٹر مجاہد کامران کا شکر گزار ہوں کہ انہوں نے مجھے ڈاکٹر مجید نظامی بنا دیا ہے۔ ہمیں بھی اب اچھا لگتا ہے کہ کوئی ڈاکٹر محمد اجمل نیازی کہتا ہے۔
تیسری بات یہ کہ اتنی جرات بہادری اور ثابت قدمی کے باوجود کوئی انہیں ایک دن بھی جیل نہیں بھیج سکا۔ اس کی مثال صرف ہمیں قائداعظم کی زندگی میں نظر آتی ہے کہ تحریک پاکستان اور تحریک آزادی کی مشترکہ جدوجہد میں پوری بے مثال کامیابی تک انگریز ایک دن بھی انہیں جیل نہیں بھجوا سکے۔ انگریزوں کے غلام حکمران اور افسران اتنی سکت کہاں رکھتے تھے کہ وہ قائداعظم کے سپاہی اپنے عظیم بھائی کے سپاہی کو جیل بھجوا سکے۔
دوستوں نے ورکرز دوستی کی کچھ ذاتی باتیں سنائیں۔ ورکرز کے لئے اتنی محبت میں نے کہیں نہیں دیکھی میں نے کئی اخبارات میں کالم لکھے مگر نوائے وقت میری پناہ گاہ اور مورچہ ہے وہ اپنے عہد کے سب سے بلند مرتبہ سب سے بڑے ایڈیٹر تھے۔ ایک وزیر کے لئے میں نے اس کے بھلے کے تنقیدی کالم لکھے کہ اس نے اپنے ایک افسر کو نظامی صاحب کی خدمت میں بھیجا۔ وہ میرے خلاف باتیں کرتا رہا۔ جب خاموش ہوا تو نظامی نے فرمایا کہ تمہاری بات ختم ہو گئی ہے۔ اس نے کہا کہ جی ہاں تو مجید نظامی نے فرمایا کہ آپ اب جائو۔ یہ بات مجھے برادر کالم نگار جرات مند اور حق گو انسان اثر چوہان نے سنائی۔
میں آخر میں ایک بات کہتا ہوں کہ ڈاکٹر مجید نظامی کے آخری سفر کو قومی اور سرکاری سطح پر منزل تک پہنچانا چاہئے تھا۔
اب میں یہ کہتا ہوں کہ یوم مجید نظامی کو قومی سطح پر منانا چاہئے۔ شہبازشریف سے ان کی بہت محبت تھی وہ اس کے لئے غور فرمائیں۔

ای پیپر-دی نیشن