بھٹو کو فیئر ٹرائل کا موقع ملا نہ انکی لیگل ٹیم نے مقدمہ کو کریمنل کیس کے طور پر ڈیل کیا
لاہور (ایف ایچ شہزاد سے) قانونی اور عدالتی حلقے اس بات پر متفق ہیں کہ ذوالفقار علی بھٹو کے مقدمے میں ملزم کو فیئر ٹرائل کا موقع نہیں ملا تو دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ بھٹو کی لیگل ٹیم نے مقدمے کو ’’کریمنل کیس‘‘ سے زیادہ بطور ’’پولیٹیکل کیس‘‘ ڈیل کیا۔ ناقص تفتیش، لالچ خوف کی بنیاد پر لی جانیوالی گواہی، پراسیکیوشن کو حکومتی امداد، ہائیکورٹ میں براہ راست ٹرائل اور عدلیہ سے وابستہ رہنے والی شخصیات کا ناانصافی ہونے کا اعتراف ایسے نکات ہیں جن کی بنا پر یہ مقدمہ کبھی عدالتی نظیر نہیں بن سکے گا۔ بھٹو کو پھانسی کی سزا کا فیصلہ 36 سال گزرنے کے بعد بھی بطور عدالتی نظیر اب تک کسی عدالت میں پیش نہیں کیا جا سکا۔ قانونی نکتہ نظر سے دیکھا جائے تو تعزیرات پاکستان کی دفعہ 109 میں سزائے موت دینا تاریخ کی منفرد مثال ہے۔ اگر اعانت جرم ثابت ہو بھی جائے تو 7 سال سے زیادہ سزا نہیں دی جا سکتی۔ اس مقدمے میں حکومت نے اپنے خصوصی اختیارات کے تحت جب ٹرائل سیشن کورٹ کی بجائے ہائیکورٹ میں شروع کیا تو بھٹو کی لیگل ٹیم نے ’’پولیٹیکل مائنڈ‘‘ کے تحت اعتراض نہ کیا۔ ان کا خیال تھا کہ ہائی پروفائل شخصیت کے سیاسی مقام کو ہائیکورٹ کے ججز بہتر سمجھیں گے۔ ٹرائل سیشن کورٹ میں شروع ہوتا تو زیادہ وقت لگتا اور اپیل کا ایک فورم بھی ضائع نہ ہوتا۔ مسعود محمود اور غلام حسین کو وعدہ معاف گواہ بنا کر 11 اکتوبر 1977ء کو جب مولوی مشتاق کی سربراہی میں ہائیکورٹ کے فل بنچ نے سماعت شروع کی تو ملزم کی طرف سے مولوی مشتاق پر کیا گیا اعتراض مسترد کر دیا گیا۔ مولوی مشتاق کی قریبی کئی عدالتی اور قانونی شخصیات نے واضح طور پر بتایا ہے کہ مولوی مشتاق ترقی نہ ملنے پر بھٹو سے انتہائی ناراض تھے۔ انہوں نے انتہائی قریبی احباب سے یہ تذکرہ بھی کیا تھا کہ میں بعد ازاں ترقی لیکر اسلئے سپریم کورٹ نہیں گیا کیونکہ مجھے یقین تھا کہ بھٹو کا کیس میرے پاس ہی آنا ہے۔ 5 ماہ کے ٹرائل کے بعد ہائیکورٹ کے فل بنچ نے سزائے موت کا حکم سنا دیا۔ 6 فروری 1979ء کو سپریم کورٹ میں اپیل کی گئی 24 مارچ 1979ء کو نظرثانی کی درخواست خارج کی گئی۔ ذوالفقار علی بھٹو کی طرف سے بریت کیلئے 265 کے کی درخواست دی گئی جو عموماً سیشن کورٹ میں دی جاتی ہے۔ مقدمہ میں تفتیش کا معیار انتہائی ناقص تھا دو وعدہ معاف گواہوں کے علاوہ باقی گواہ سرکاری تھے، کوئی شہادت براہ راست نہیں تھی۔ حکومت نے پراسیکیوشن کو قانون سے ہٹ کر تمام سہولتیں اور فوائد دیئے۔ عدالتی فیصلے میں لکھا گیا کہ ذوالفقار علی بھٹو کو تعزیرات پاکستان کے سیکشن 109 کے تحت سزائے موت دی جاتی ہے مگر ٹرائل میں 10 فیصد بھی وہ قانونی تقاضے پورے نہیں کئے گئے جن سے آئین کے آرٹیکل 10 اے کے مطابق ملزم کو فیئر ٹرائل کا حق ملتا۔ بھٹو کو 4 اپریل 1979ء کو صبح 2 بجکر 4 منٹ پر تختہ دار پر لٹکا دیا گیا۔