• news

متحدہ میں پھوٹ کے آثار‘نئی اور پرانی قیادت میں اختلافات بڑھ گئے

لاہور(جواد آر اعوان+نیشن رپورٹ) موجودہ صورتحال میں یہ واضح نہیں کہ آیا متحدہ قومی موومنٹ کے پرانے کارکن اور الطاف کے ساتھی پارٹی کی لندن قیادت کی کراچی پر گرفت برقرار رکھ سکیں گے یا نہیں تاہم ہر گزرتے دن کے ساتھ یہ کہنا مشکل نہیں متحدہ میں پھوٹ ڈالی جارہی ہے۔ اس سے قبل متحدہ کے بانی رہنمائوں کے قتل کے بعد ایم کیو ایم الطاف اور ایم کیو ایم حقیقی میں تقسیم ہوئی تھی۔ حقیقی کے شریک بانی عامر خان کے الطاف کیساتھ مل جانے کے بعد آفاق کی قیادت میں یہ گروپ کامیاب نہ ہوسکا۔ آفاق اور عامر کے جیل میں جانے کے بعد عملی طور پر یہ گروپ ختم ہوگیا۔ متحدہ کے پرانے کارکنوں کو ’’اولڈ گارڈ‘‘ کا لقب دیا گیا۔ 2005ء میں مشرف دور حکومت میں متحدہ میں ’’نیوگارڈ‘‘ یا نئے رہنمائوں کا گروپ سامنے آیا، 2006ء میں اس گروپ نے لندن کی قیادت کیلئے مشکلات پیدا کرنے کی کوشش کی مگر اس حوالے سے کوئی بنیاد نہیں بنا سکا۔ صولت مرزا کی جانب سے ’’اولڈ گارڈ‘‘ کے بارے میں سنسنی خیز انکشافات جن میں لندن کمانڈ کے رکن محمد انور پر منی لانڈرنگ کے الزامات بھی عائد کئے گئے، کے بعد الطاف کے وفادار رہنما ایک بار پھر مشکل میں پڑ گئے ہیں اور ’’نیوگارڈ‘‘ کو پارٹی کا تاج چھیننے کیلئے نیا حوصلہ ملا ہے۔ نیو گارڈ کے ذرائع نے بتایا کہ لندن کی کمانڈ نے پرانے رہنمائوں کو ہدایت کی ہے کہ وہ پارٹی کے اندر یا باہر سے مخالفین پر دبائو بڑھائیں۔ الطاف کے وفاداروں اولڈ گارڈ نے کراچی میں اپنی کارروائی شروع کردی ہے جس کے بعد انکی مخالفت کرنیوالے تحریک انصاف کے کارکنوں اور متحدہ کے نیو گارڈ نے خود کو الطاف کے وفاداروں سے بچانا شروع کردیا ہے۔ ذرائع کے مطابق حال ہی میں سندھ گورنر ہائوس میں متحدہ اور تحریک انصاف میں امن کی کوششوں کے پیچھے متحدہ کی نئی قیادت کی کوششوں کا دخل تھا۔ لندن کمانڈ کی ہدایت پر سرگرم پرانے رہنمائوں کے حوالے سے فاروق ستار، عامر خان، انیس قائم خانی، قمر منصور، خالد مقبول کے نام اہم ہیں۔ دوسری طرف پرانے رہنمائوں نے متحدہ کی نئی قیادت کے دعوئوں کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ پارٹی میں الطاف کو چیلنج کرنیوالا کوئی نہیں اور نام نہاد نئی قیادت دراصل اسٹیبلشمنٹ کے ایجنٹ ہیں جو پارٹی تباہ کرنا چاہتے ہیں اور یہی نئی قیادت اپنے آقائوں کے اشاروں پر تحریک انصاف کے خلاف حملے کررہی ہے۔ اس نئی قیادت میں مصطفی کمال، رضاہارون، فیصل سبزواری اور بابر غوری شامل ہیں تاہم بابر غوری حال ہی میں دونوں گروپوں سے لاتعلق بھی ہوچکے ہیں۔ فیصل موٹا کو بھی نائن زیرو پر اس نئی قیادت نے سہولت فراہم کی حالانکہ اسکا پارٹی سے کوئی تعلق نہیں تھا۔

ای پیپر-دی نیشن