’’کرکٹنگ ڈسپلن‘‘ کرکٹرز کے لئے سخت پیغام
پاکستان کرکٹ بورڈ کی نئی سلیکشن کمیٹی نے قومی کرکٹ کا نیا راستہ سلیکٹ کر لیا ہے۔ اب مستقبل میں کرکٹرز کو اپنے کھیل میں ’’کرکٹنگ ڈسپلن‘‘ لانا ہو گا۔ ہارون رشید نے نرم زبان میں قومی ٹیم کے کھلاڑیوں کو ملک کے لئے کھیلنے کا سخت ترین پیغام دیا ہے۔ اس پیغام سے ان شکوک و شبہات کو تقویت پہنچتی ہے کہ ہمارے ’’لاڈلے ہیروز‘‘ ملک کے بجائے اپنی ذات یا کسی ’’اور‘‘ کے لئے بھی کھیلتے ہیں۔ نئی سلیکشن کمیٹی میں پرانے لیکن تجربہ کار افراد ضرور شامل ہیں۔ بعض افراد کو یہ چہرے پسند نہیں ہیں یہ وہی لوگ ہیں جن کو معین خان کی سلیکشن کمیٹی پر بھی اعتراض تھا۔ جب معین خان‘ اعجاز احمد‘ شعیب محمد‘ محمد اکرم‘ وجاہت اللہ واسطی جیسے نئے چہرے بھی ناکام ہوں تو پھر بزرگوں کی طرف ہی دیکھا جائے گا۔ پھر کیا کیا جائے کہیں سے تو آغاز کرنا ہی تھا۔ کرکٹ بورڈ نے عالمی کپ 2015ء کے بعد مستقبل کی تیاریوں کی ذمہ داری ہارون رشید‘ اظہر خان‘ سلیم جعفر اور کبیر خان کے سپرد کر دی ہے۔ دورہ بنگلہ دیش کے لئے ہارون رشید کی سربراہی کام کرنے والی سلیکشن کمیٹی نے پریس کانفرنس میں تینوں فارمیٹس کے لئے ٹیموں کا اعلان کیا۔ مصباح الحق‘ شاہد آفریدی کی ریٹائرمنٹ کے بعد یونس خان‘ احمد شہزاد‘ ناصر جمشید اور عمر اکمل کو بھی گھر بھجوا دیا گیا ہے۔ نئے چہروں بابر اعظم‘ سمیع اسلم‘ محمد رضوان عمر گل اور مختار احمد کو مختلف فارمیٹس میں صلاحیتوں کے اظہار کا موقع دیا گیا ہے۔ فواد عالم‘ عمر گل اور سہیل تنویر کی بھی واپسی ہوئی ہے۔ عالمی کپ مقابلوں میں عمدہ کارکردگی کے صلے میں وہاب ریاض‘ سہیل خان اور راحت علی پر سلیکشن کمیٹی نے مکمل اعتماد کا اظہار کیا ہے۔ نئے کھلاڑیوں کی شمولیت اور ناکام سینئرز کو باہر بٹھانے سے مقابلے کی فضا پیدا ہو گی۔ اب نوجوان کھلاڑیوں کے لئے بہترین موقع ہے کہ وہ عمدہ کھیل کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے انتخاب کو درست ثابت کریں اور ٹیم کے مستقل رکن بن کر بین الاقوامی سطح پر ملک کا نام روشن کرتے ہوئے پاکستان کی کامیابیوں میں اپنا کردار ادا کریں۔ بابر اعظم‘ سمیع اسلم‘ مختار احمد اور محمد رضوان کو حقیقی معنوں میں ڈومیسٹک کرکٹ اور مختلف سطح کے مقابلوں میں عمدہ کارکردگی کا انعام ملا ہے۔ بلے باز عثمان صلاح الدین اور فرسٹ کلاس کرکٹ میں پرفارم کرنے والے دیگر کھلاڑی بھی سلیکشن کمیٹی کی یقیناً نظر میں ہوں گے۔ انہیں بھی بروقت موقع دیا جانا ضروری ہے۔ احمد شہزاد اور عمر اکمل کو ڈراپ کرنے پر بعض ماہرین نے تنقید کی ہے۔ موجودہ صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو ان کھلاڑیوں سے یہ سلوک میرٹ پر کیا گیا ہے بلکہ ہماری رائے میں تو احمد شہزاد کو 20,20 فارمیٹ سے بھی ڈراپ کرنا چاہئے تھا۔ سلیکشن کمیٹی کے چیف نے اگر ’’کرکٹنگ ڈسپلن‘‘ اور ملک کے لئے کھیلنے کی بات کو سرفہرست رکھا ہے تو پھر احمد شہزاد اس معیار پورا نہیں اترنے کہ انہیں ٹوئنٹی‘ ٹوئنٹی کے لئے ٹیم کا حصہ بنایا جاتا۔ ٹیسٹ کرکٹ میں عمدہ پرفارمنس کے باوجود انہیں ڈراپ کیا گیا ہے تو پھر نامناسب رویے کی وجہ اور دماغ کی درستگی کے لئے مختصر تر فارمیٹ کے لئے ڈراپ کر دینا مناسب تھا۔ سلیکشن کمیٹی کو حقیقی آل راؤنڈرز کی تیاری اور تلاش پر بھی توجہ مرکوز کرنا ہو گی۔ آدھے تیتر آدھے بٹیر کھلاڑیوں سے جان چھڑانا ہوگی۔ جس پریس کانفرنس میں ہارون رشید نے ٹیم کا اعلان کیا وہاں موجود سینئر صحافیوں نے مجموعی طور پر اسے متوازن ٹیم قرار دیا۔ سہیل تنویر کی سلیکشن پر اعتراض ضرور تھا۔ ہماری رائے میں اس اکلوتے آل راؤنڈر سے آگے بڑھ کر اور باہر نکل کر بھی سوچنے کی ضرورت ہے۔ پرانے اور تجربہ کار افراد پر مشتمل نئی سلیکشن کمیٹی کی پہلی پرواز اچھی رہی ہے۔ اچھے فیصلے کئے گئے ہیں۔ عہد و پیماں ہیں‘ بلند حوصلے ہیں‘ دباؤ میں نہ آنے‘ آزادی و خود مختاری کے ساتھ ٹیم کے انتخاب کو یقینی بنانے کا عزم ہے۔ کھلاڑیوں میں وطنیت پیدا کرنے اس جذبے کو بڑھانے اور ٹیم میں ’’کرکٹنگ ڈسپلن‘‘ کی روایت کو پیدا اور مضبوط کرنے کا دعویٰ بھی کیا گیا ہے۔ مستقبل میں میرٹ پر فیصلے ہی موجودہ سلیکشن کمیٹی کی عزت اور وقار کو قائم رکھ سکیں گے۔ اچھے اور حقدار کرکٹرز کو موقع دیتے رہیں اور باصلاحیت لڑکوں کے لئے جنگ بھی جاری رکھیں نیا ٹیلنٹ آپکی توجہ کا مستحق ہے۔