• news

پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس: تحریک انصاف کی آمد پر حکومتی، اپوزیشن ارکان کا ہنگامہ، گالیاں دینے اور جعلی اسمبلی کہنے والے شرم کریں: خواجہ آصف

اسلام آباد (وقائع نگار خصوصی+خبرنگار خصوصی+نوائے وقت رپورٹ+آئی این پی) سپیکر ایاز صادق کی زیر صدارت پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس شروع ہوا تو حکومتی اور اپوزیشن ارکان نے تحریک انصاف کی واپسی پر شدید احتجاج کیا۔ ارکان نے لوٹ کے بدھو گھر کو آئے، معافی مانگو اور ”گو عمران گو“ کے نعرے لگائے۔ وزیردفاع خواجہ آصف نے کہا گالیاں دینے اور جعلی اسمبلی کہنے والے شرم کریں، بعض مسلم لیگی ارکان کچھ نازیبا اور غیرپارلیمانی نعرے بھی بلند کرتے رہے۔ ان کا مو¿قف تھا پی ٹی آئی پارلیمنٹ کو جعلی اور ارکان کو چور اچکے کہنے پر معافی مانگے۔ و قائع نگار خصوصی، خبر نگار خصوصی کے مطابق حکومتی ارکان نے پی ٹی آئی کیخلاف شدید نعرے بازی کی ایوان مچھلی منڈی کا منظر پیش کر رہا تھا کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی سپیکر اپنے ہی ارکان کے سا منے بے بس نظر آئے وہ تشریف رکھیں ، تشریف رکھیں کی گردان دہراتے رہے۔ ا±نکا کہنا تھا پی ٹی آئی کے استعفے اپنی موت آپ مرچکے ہیں تو لیگی ارکان نے کہا ایوان میں اجنبی لوگ موجود ہیں جس پر شاہ محمود قریشی کاکہنا تھا ان کے استعفے منظور ہی نہیں ہوئے، سپیکر کاکہنا تھاکہ ا±نہوں نے استعفے منظور ہی نہیں کئے تھے ، یہ ا±ن کاکام ہے کہ استعفے منظور کریں یا نہ کریں۔سپیکر کے باربار روکنے کے باوجود خاموش نہ ہونے پر وہ خواجہ آصف اور پرویز رشید کو مخاطب کرتے ہوئے حکومتی ارکان کو روکنے کی استدعا کرتے رہے لیکن وہ بھی ناکام رہے جس پر سپیکر نے خبردار کیا مجبور نہ کیا جائے کہ وہ پندرہ منٹ تک اجلاس ملتوی کریں۔ لیگی ارکان کے دھیمے پڑنے کے بعد امیر زمان نے پی ٹی آئی ارکان کے ایوان میں بیٹھنے پر اعتراض کیا جس پر سپیکر نے کہا یہ ایوان میں بیٹھے ہیں تو پارلیمنٹ کے رکن ہیں، سپیکر کا کام سپیکر پر چھوڑ دیں۔ بی بی سی کے مطابق پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس آغاز میں بدمزگی کا شکار رہا۔ حکمران جماعت مسلم لیگ کے ارکان نے پاکستان تحریک انصاف کے ارکان کا نعروں سے استقبال کیا اور سپیکر اور وزرا کے سمجھانے کے باوجود وہ تحریک انصاف کے خلاف جملے کستے اور طعنے دیتے رہے۔ ایسا لگا جیسے مسلم لیگی ارکان اپنا سارا غصہ ایک ہی دن میں نکال دینے کے ارادے سے پارلیمنٹ ہاو¿س آئے تھے۔ اس سے پہلے کہ سپیکر ایاز صادق اجلاس کی کارروائی کا باقاعدہ آغاز کرتے، مسلم لیگی ارکان نے پی ٹی آئی کے ارکان اسمبلی سے شور مچا کر ایوان سے معافی مانگنے کا مطالبہ شروع کر دیا۔ ابتدائی طور پر مسلم لیگی ارکان نے کورس کے انداز میں جو نعرہ بلند کیا وہ تھا، ’معافی مانگو معافی‘ لیکن ماحول جوں جوں گرم ہوتا گیا نہ صرف اس نعرے کے ساتھ کچھ نازیبا کلمات کا اضافہ ہوا بلکہ کچھ نئے نعرے بھی لگائے گئے۔ ابتدا میں تو وفاقی وزرا خاموشی سے بیٹھے یہ سب دیکھتے رہے بلکہ بعض کے چہرے سے تو یہ ظاہر ہو رہا تھا وہ اس صورتحال کا مزا بھی لے رہے ہیں۔ نعرے لگتے رہے، ڈیسک بجتے رہے اور اس دوران پی ٹی آئی کے ارکان عمران خان کی قیادت میں خاموشی سے یہ سب دیکھتے اور سہتے رہے۔ جب عمران خان کی قیادت میں پی ٹی آئی کے ارکان پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں آئے تو جمعیت علمائے اسلام کے مولانا امیر زمان نے نکتہ اٹھایا یہ ارکان تو قومی اسمبلی سے مستعفی ہو چکے ہیں لہٰذا وہ اس ایوان کے لیے اجنبی ہیں۔ سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق جو اجلاس کی صدارت کررہے تھے انہوں نے اس تنازعے کی وضاحت کرتے کہا انہوں نے یہ استعفے منظور نہیںکیے تھے۔ اسمبلی کے قواعد میں واضح لکھا ہے میرے لیے ضروری ہے میں تصدیق کروں یہ استعفے رضاکارانہ دئیے گئے ہیں یا نہیں۔ چونکہ یہ ثابت نہیں ہوا اس لیے پی ٹی آئی ارکان کے استعفے منظور نہیں ہوئے لہٰذا وہ قومی اسمبلی کے ارکان ہیں۔ نوائے وقت رپورٹ کے مطابق ایم کیو ایم کے فاروق ستار نے کہا پی ٹی آئی کے ارکان ایوان میں ہیں تو پھر گیلری میں بیٹھے لوگوں کو بھی بٹھایا جائے، اجنبی ارکان کی موجودگی سے ایوان کی آئینی حیثیت متاثر ہوتی ہے۔ سپیکر نے فاروق ستار کا مائیک بند کردیا، جس پر فاروق ستار نے واک آﺅٹ کا اعلان کیا اس دوران سپیکر نے وزیردفاع خواجہ آصف کو خطاب کا کہا تو انہوں نے پی ٹی آئی کے ارکان کو باری باری کھڑا کرکے استعفوں کی تصدیق کرنے کا مطالبہ کردیا۔ خواجہ آصف نے کہا ان سب کو کھڑا کرکے پوچھیں انہوں نے استعفیٰ دیا تھا یا نہیں؟ سپیکر نے کہا فیصلہ میں کروں گا خواجہ آصف نہیں، پی ٹی آئی ارکان کے استعفے کے معاملے پر سپیکر نے آئین کی شق 64 پڑھ کر سنائی۔ جس پر خواجہ آصف نے کھڑے ہوکر کہا سپیکر صاحب آپ کا حرف، حرف آخر ہے لیکن ان لوگوں کو تھوڑی سی شرم ہونی چاہئے خدا کا خوف کرو، کوئی حیا بھی ہوتی ہے، کوئی شرم بھی ہوتی ہے، کنٹینر پر کھڑے ہوکر گالیاں دیتے رہے ہو اور اب ایوان میں بیٹھے ہو۔ باہر جاکر کہتے ہیں دھاندلی کی اسمبلی ہے۔خواجہ آصف پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں پی ٹی آئی ارکان پر برس پڑے خواجہ آصف کے ان الفاظ پر عمران خان ، شاہ محمود قریشی اور پی ٹی آئی کے دیگر ارکان کے چہرے پر غصہ نظر آیا۔جے یو آئی ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے ایوان میں خطاب کرتے کہا مستعفی لوگ ہماری نظر میں اجنبی ہیں اور ایوان کا حصہ نہیں سپیکر کی رولنگ ایوان کیلئے قابل قبول نہیں آج بھی پارلیمنٹ کو گالیاں دی گئیںسپیکر صاحب پی ٹی آئی پر آپ کی آج کی رولنگ پر افسوس ہے پی ٹی آئی ارکان سے پوچھا جائے استعفیٰ دیا تھا کہ نہیں۔ نوائے وقت نیوز کے مطابق سپیکر نے خورشید شاہ کو بولنے کی اجازت دے دی۔ شیخ رشید نے اپوزیشن لیڈر سے بولنے کی کوشش کی تو خورشید شاہ نے کہا شیخ صاحب براہ راست بات نہ کریں۔ خورشید شاہ نے کہا حکومت سے کہوں گا اپنے ارکان کو پارٹی کے تحت کنٹرول میں رکھیں۔ تحریک انصاف کو واپس ایوان میں لانے کا کریڈٹ اپوزیشن کو جاتا ہے۔ تحریک انصاف کو مسلم لیگ (ن) کے وزیر اسحاق ڈار واپس لے کر آئے ہیں۔خورشید شاہ نے کہا آپ نے احتجاج کرنا ہے تو اپنی حکومت کے خلاف کریں جس نے پی ٹی آئی کو اسمبلیوں میں آنے کی اجازت دی۔ تحریک انصاف کی واپسی سے جمہوریت کی فتح ہوئی ہے۔ خورشید شاہ نے کہا اہم مسئلے پر اجلاس ہو رہا ہے، میں یہاں وزیراعظم کو دیکھنا چاہتا ہوں۔ وزیراعظم آئیں اور بحث کا آغاز کریں۔ خواجہ آصف نے کہا فیصلے کے وقت وزیراعظم پارلیمنٹ میں موجود ہوں گے۔ سری لنکن صدر کا دورہ پہلے سے طے شدہ تھا۔ اپوزیشن نے اجلاس ملتوی کرنے کا مطالبہ کیا جبکہ حکومت نے اجلاس جاری رکھنے پر اصرار کیا۔ پارلیمنٹ کے باہر گفتگو کرتے ہوئے ایم کیو ایم کے فاروق ستار نے کہا یہ اجلاس غیر آئینی اور غیر قانونی ہے اس پر پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں احتجاج کیا ہم نے آئینی نکتے پر سپیکر اور ہاﺅس کی توجہ دلائی، آرٹیکل 64 شق ون اور ٹو واضح ہے جو رکن مسلسل 40 دن غیر حاضر رہے وہ مستعفی ہو جاتا ہے۔ تحریک انصاف کو واپس آنے کی اجازت دینا سپیکر کا صوابدیدی اختیار نہیں۔ ہم عدالت تک جائیں گے۔ خواجہ آصف نے کھری کھری سنا دیں جبکہ اس دوران عمران خان اور شاہ محمودقریشی غصے سے تلملاتے رہے۔ پیپلزپارٹی کے رکن اسمبلی اعتزازاحسن نے کہا وزیردفاع چاہتے ہیں 34 ضمنی انتخابات ہوجائیں انہوں نے جذباتی باتیں کیں ، وہ آج مجھے پورس کے ہاتھی نظر آئے ہیں۔ حکومت خود پی ٹی آئی ارکان کو اسمبلی میں لے کر آئی ہے۔ کیا ہم مِنی جنرل الیکشن کے متحمل ہوسکتے ہیں کچھ دوستوں کا این اے 246 کا معاملہ ہوسکتا ہے۔ وزیردفاع حکومت میں ہیں، لہجہ نرم شیریں اور مدھم ہونا چاہیے۔نمائندہ خصوصی کے مطابق پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس اجلاس میں پیر کی شام کو مشترکہ اجلاس کی دوسری نشست کے دوران بھی ایوان کے اندر شدید ہنگامہ آرائی ہوئی۔ ایم کیو ایم کے ارکان نے عمران خان جبکہ تحریک انصاف کے ارکان نے ایم کیو ایم کے خلاف ایوان کے اندر نعرہ بازی کی ایم کیو ایم نے اجلاس سے علامتی واک آﺅٹ کیا جبکہ مسلم لیگ ن کے ارکان نے بھی ایوان کے اندر معافی مانگو عمران خان، دیکھو عمران سکون آیا، شیر آیا شیر آیا کے نعرے لگائے۔ ایوان کے اندر ہنگامی آرائی کا آغاز اس وقت ہوا جب سپیکر نے ایم کیو ایم کے ڈاکٹر فاروق ستار کو نکتہ اعتراض بنا کر بات کرنے کی اجازت دی تاہم ڈاکٹر فاروق ستار نے خطاب سے قبل ہی مسلم لیگ (ن) کے عقبی نشستوں پر بیٹھے ہوئے ارکان نے شدید نعرے لگائے۔ ایوان میں اس وقت ماحول شدید کشیدہ ہوگیا جب ایم کیو ایم کے ارکان نے واک آﺅٹ کرکے باہر جانے لگے تو تحریک انصاف اور ایم کیو ایم کے ارکان کے درمیان آمنا سامنا ہوگیا اور دونوں جماعتوں کے ارکان نے ایک دوسرے کیخلاف اتنی شدید نعرے بازی کی جس سے کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی۔ اس موقع پر وفاقی وزیر احسن اقبال، چودھری برجیس طاہر اور شیخ آفتاب دونوں جماعتوں کے ارکان کے درمیان آئے اور بیچ بچاﺅ کروایا ایسے خدشات موجود تھے کہ معاملہ ہاتھا پائی تک چلا جاتا۔

لاہور/ کراچی (خبرنگار+ خصوصی نامہ نگار+ وقائع نگار) پنجاب اسمبلی میں 7 مہینے کے طویل وقفے کے بعد تحریک انصاف کے ارکان ایوان میں واپس آگئے۔ تحریک انصاف کے 12 ارکان اپوزیشن لیڈر محمود الرشید کی قیادت میں پنجاب اسمبلی کے ایوان میں داخل ہوئے تو حکومتی بنچوں اور اپوزیشن بنچوں پر موجود پیپلز پارٹی اور ق لیگ کے ارکان نے انہیں خوش آمدید کہا۔ قائم مقام سپیکر نے کہا کہ تحریک انصاف کے ارکان کے استعفے آئے تھے انکی تصدیق نہیں ہوسکی تھی اس لحاظ سے یہ غیر موثر ہوگئے ہیں۔ سابق وزیر قانون رانا ثنا اللہ نے تحریک انصاف کے ارکان کو خوش آمدید کہتے ہوئے کہا اپوزیشن پنجاب اسمبلی کے ایوان کا لازمی حصہ ہے۔ حکومتی ارکان نے ڈیسک بجا کر پی ٹی آئی کے ارکان کا استقبال کیا جبکہ مسلم لیگ (ن) اور پی ٹی آئی کی خواتین ارکان گلے ملیں۔ راجہ اشفاق سرور نے کہا تحریک انصاف کو واپسی پر خوش آمدید کہتا ہوں۔ ان کی عدم موجودگی میں بقیہ جماعتوں نے چھوٹی اپوزیشن ہونے کے باوجود اپنا کردار بخوبی اداکیا۔ وزیر قانون میاں مجتبیٰ شجاع الرحمن نے کہا تحریک انصاف والے جب دھرنا دینے جارہے تھے تو وزیراعظم نوازشریف نے جوڈیشل کمشن کی تجویز دی تھی۔ اسی وقت یہ تجویز مان لیتے تو اتنی دیر اسمبلیوں سے باہر نہ رہنا پڑتا۔ اپوزیشن لیڈر محمود الرشید نے کہا جتنا عرصہ ایوان سے غیرحاضر رہے آپ نے یقیناً مِس کیا ہوگا۔ جوڈیشل کمشن کسی کی ہار یا جیت نہیں بلکہ قوم کی جیت ہے۔ جوڈیشل کمشن بنا ہے توہم اسمبلیوں میں واپس آگئے ہیں۔ اداروں کی مضبوطی، کرپشن کے خاتمے کیلئے جدوجہد کرتے رہیں گے۔ انہوں نے کہا ایک رہائشی سکیم کے نام پر عوام سے فراڈ ہونے جارہا ہے، اربوں روپیہ اکٹھا کیا جارہا ہے، اس بارے میں ہر فورم پر بات کریں گے، پریس کانفرنس کریں گے۔ انہوں نے کہا اُمید ہے کمشن شفاف انداز میں اپنی ذمہ داریاں پوری کریگا۔ وقائع نگارکے مطابق پیر کو سندھ اسمبلی کے اجلاس میں ڈپٹی سپیکر سیدہ شہلا رضا نے رولنگ دی پاکستان تحریک انصاف کے ارکان سندھ اسمبلی کے استعفے کا کوئی نوٹیفکیشن جاری نہیں ہوا لہٰذا وہ ابھی تک سندھ اسمبلی کے ارکان ہیں۔ انہوں نے یہ رولنگ ایم کیو ایم کے رکن محمد حسین کے نکتہ اعتراض پر دی۔ تحریک انصاف کے دو ارکان خرم شیر زمان اور ڈاکٹر سیما ضیا نے طویل عرصے کے بعد اجلاس میں شرکت کی۔ محمد حسین اس معاملے پر بات کرنا چاہتے تھے لیکن انہیں پورے اجلاس کے دوران بات نہیں کرنے دی گئی۔ وہ اس وقت احتجاج کرتے رہے جب تک اپوزیشن کے ارکان اجلاس سے واک آو¿ٹ کرکے نہیں چلے گئے۔ اس دوران محمد حسین اور ڈپٹی سپیکر کے درمیان تلخ کلامی بھی ہوئی۔ محمد حسین خان نے سیدہ شہلا رضا سے کہا وہ قواعد کے مطابق ایوان کو نہیں چلا رہی ہیں۔ شہلا رضا نے غصے سے کہا کہ آپکو پتہ ہی نہیں ہے کہ سپیکر سے بات کیسے کی جاتی ہے۔ متحدہ قومی موومنٹ کے ارکان نے سندھ اسمبلی میں ایم کیو ایم کے مرکز نائن زیرو پررینجرز کے چھاپے اور گرفتاریوں کا معاملہ اٹھانے کی اجازت نہ ملنے پر احتجاجاً اجلاس سے واک آﺅٹ کیا۔ سندھ اسمبلی میں ایم کیو ایم، مسلم لیگ فنکشنل اور مسلم لیگ (ن) سے تعلق رکھنے والے اپوزیشن ارکان نے نکتہ ہائے اعتراض پر بات کرنے کی اجازت نہ ملنے پر سخت احتجاج، شور شرابہ اور ہنگامہ کیا۔ انہوں نے سپیکر ڈائس کے سامنے جاکر احتجاج بھی کیا اور نعرے بازی بھی کی۔ وہ شیم شیم کے نعرے لگا رہے تھے۔ اپوزیشن لیڈر شہریار خان مہر اور مسلم لیگ فنکشنل کے دیگر ارکان نے اسمبلی کے قواعد کی کتابیں بھی پھاڑ دیں جبکہ سپیکر آغا سراج درانی نے ان کے خلاف کارروائی کرنے کا اعلان کیا۔ ایک مرتبہ ایم کیو ایم کے ارکان نے واک آو¿ٹ کیا۔ دوسری مرتبہ مسلم لیگ فنکشنل اور مسلم لیگ (ن) کے ارکان نے احتجاجاً واک آو¿ٹ اور پھر تیسری مرتبہ ان تمام ارکان نے واک آو¿ٹ کیا اور اجلاس ختم ہونے تک ایوان میں واپس نہیں آئے۔ احتجاج کے دوران ڈپٹی اسپیکر سیدہ شہلا رضا نے اجلاس 10 منٹ کیلئے ملتوی بھی کیا۔ ایم کیو ایم والے تحریک انصاف کے ارکان سندھ اسمبلی کے استعفیٰ کے حوالے سے بات کرنے کی اجازت نہ ملنے پر مسلسل احتجاج کرتے رہے۔ مسلم لیگ فنکشنل اور مسلم لیگ (ن) کے ارکان نے بھی ایوان میں واپس آ کر احتجاج جاری رکھا۔
سندھ اسمبلی

ای پیپر-دی نیشن