پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کا پہلا دن پی ٹی آئی کی واپسی پر اختلاف کی نذر ہو گیا
اسلام آباد (جاوید صدیق) یمن کے بحران پر سعودی عرب کی عسکری مدد کرنے کے سوال پر بلایا گیا پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس پہلے روز تحریک انصاف کی اسمبلی میں واپسی کے مسئلہ پر باہمی اختلافات کی نذر ہو گیا۔ گزشتہ روز پارلیمنٹ کے اجلاس میں وزیر دفاع خواجہ آصف کی جملے بازی جس سے ایوان کا ماحول تلخ ہو گیا۔ مسلم لیگ (ن)کے علاوہ جمعیت علمائے اسلام کے رہنما مولانا فضل الرحمان نے بھی جلتی پر تیل کا کام کیا اور کہا کہ سپیکر نے پی ٹی آئی کے ارکان کے استعفے منظور نہ کر کے آئین کی خلاف ورزی کی ہے۔ پی ٹی آئی کے ارکان آئینی طور پر اب اس ایوان میں اجنبی ہیں۔ سپیکر پی ٹی آئی کے ارکان کے استعفے منظور کرنے کے علاوہ کوئی دوسرا آپشن استعمال نہیں کر سکتے۔ ادھر ایم کیو ایم نے بھی یہی مؤقف اختیار کیا کہ تحریک انصاف کے ارکان قومی اسمبلی کے رکن نہیں رہے۔ پارلیمنٹ کے باہر تحریک انصاف اور ایم کیو ایم کے درمیان جو تلخ سیاست ہو رہی ہے وہ پارلیمنٹ کے اندر بھی آ گئی ہے۔ گزشتہ روز کے اجلاس میں یوں محسوس ہو رہا تھا کہ سعودی عرب اور یمن کے درمیان جنگ کا معاملہ پس منظر میں چلا گیا ہے اور تحریک انصاف کے ارکان کی پارلیمنٹ میں واپسی کا ایشو اہمیت اختیار کر گیا ہے۔ پی پی پی ‘ مسلم لیگ (ن) اور کئی دوسری جماعتیں یہ کہتی رہی ہیں کہ تحریک انصاف کو واپس اسمبلیوں میں آنا چاہئے۔ حکومت کی طرف سے جوڈیشل کمشن کے اعلان کے بعد تحریک انصاف جب پارلیمنٹ میں واپس آئی تو اس کے ارکان پر چند مخالف جماعتوں کی طرف سے پھبتیاں کسی گئیں اور انہیں آئینی طور پر پارلیمنٹ کا رکن ماننے سے انکار کیا گیا۔ وزیر دفاع کے جملوں نے معاملات کو مزید بگاڑ دیا۔ بعض تجزیہ کار حیران تھے کہ وزیر دفاع نے جو کہا کیا وہ مسلم لیگ (ن) کی پالیسی تھی اور کیا وزیراعظم کے ایماء پر وزیر دفاع نے تحریک انصاف کے لتے لئے۔ ایک سیاسی رہنما کا خیال تھا کہ عمران خان دھرنوں میں اور دوسرے فورمز پر مسلم لیگ (ن) کے بارے میں جو کہتے رہے ہیں مسلم لیگ (ن) نے پارلیمنٹ کے گزشتہ روز کے اجلاس میں حساب چکانے کی کوشش کی ہے۔