اسلام آباد ہائیکورٹ کا سابق سٹیشن چیف سی آئی اے، لیگل کونسل کے خلاف مقدمہ درج کرنے کا حکم
اسلام آباد (آن لائن + صباح نیوز)اسلام آباد ہائی کورٹ نے جنوبی وزیرستان کے علاقہ میر علی میں ہونے والے ڈرون حملے میں ہلاک ہونے والے کریم خان کے بھائی اور بیٹے کی ہلاکت کا مقدمہ میں سی آئی اے کے سابق چیف سٹیشن جوناتھن اور لیگل کونسل جان ریزو کے خلاف آئی جی اسلام آباد کو مقدمہ درج کرنے کا حکم دے دیا ۔ عدالت نے آئی جی اسلام آباد پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ڈرون حملہ کی ایف آئی ار چوبیس گھنٹوں میں پیش کی جا ئے ۔ منگل کے روز اسلام آباد ہائی کورٹ میں جنوبی وزیر ستان کے علاقہ میر علی میں 2010 میں ہونے والے ڈرون حملے میں دو افراد کے قتل کیس کی سماعت کی ۔جسٹس شوکت عزیز صدیقی پر مشتمل سنگل بینچ نے سماعت کی ۔ آئی جی اسلام آباد طاہر عالم خان اور سٹینڈنگ کونسل حسنین ابراہیم کاظمی عدالت میں پیش ہوئے جبکہ درخواست گزار کریم خان کے وکیل مرزا شہزاد اکبر عدالت میں پیش ہوئے۔ ابتدائی سماعت کے دوران جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے آئی جی اسلام آباد سے استفسار کیا کہ ابھی تک اسلام آباد ہائی کورٹ کے حکم پر ڈرون حملہ میں ہلاک ہونے والے دو افراد کے قتل کا مقدمہ درج کیوں نہیں کیا گیا ۔ جس پر وہ عدالت میں کوئی جواب نہ دے سکے ۔ عدالت نے آئی جی اسلام آباد پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کیس کی سماعت دو گھنٹے کے لئے ملتوی کی۔ بعد میں جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے چیمبر میں ڈرون حملہ کیس کی سماعت ہوئی۔ عدالت نے آئی جی اسلام آباد کو سی آئی اے کے سابق چیف سٹیشن اور لیگل کونسل کے خلاف چوبیس گھنٹے کے اندر مقدمہ درج کرنے کا حکم دیا۔ عدالت نے تحریری احکامات جاری کئے کہ ڈرون حملہ کیس کا مقدمہ تھانہ سیکرٹریٹ اسلام آباد میں درج کیا جائے کیونکہ عدالت نے 5 جون 2014 کو تھانہ سیکرٹریٹ کے ایس ایچ او نواز بھٹی کو دو افراد کے قتل کا مقدمہ درج کرنے کا حکم دیا تھا ، 5 جون 21014 میں دیئے گئے حکم پر عملدرآمد کیا جائے۔ ڈرون حملہ کی ایف آئی آر درج کر کے چوبیس گھنٹوں کے اند رعدالت میں پیش کی جائے جبکہ عدالت میں آئی جی اسلام آباد نے موقف اختیار کیا کہ ڈرون حملہ جنوبی وزیرستان کے علاقے میں ہوا ہے وہ اسلام آباد کی حدود نہیں بنتی اس لئے قتل کا مقدمہ یہاں درج نہیں ہو سکتا۔ آئی جی نے عدالت کو وفاقی حکومت کا موقف بھی پیش کرتے ہوئے رپورٹ دی کہ پاکستان میں سفارتی تعلقات کی بناء پر ڈرون حملہ میں ہلاک ہونے والے افراد کے قتل کا مقدمہ درج نہیں کیا جا سکتا۔ اس سے دونوں ملکوں کے سفارتی تعلقات متاثر ہو سکتے ہیں۔ جسٹس شوکت عزیز صدیقی کا کہنا تھا کہ اس معاملہ کی ایف آئی آر ضرور درج ہو گی۔ عدالت نے حکم جاری کیا ہے اور عدالتی حکم پر عملدرآمد ضرور ہو گا۔ ایف آئی آر درخواست گزار کی جانب سے جمع کرائی درخواست کے مطابق درج کی جائے۔