سعودی حکام سے مذاکرات کی زیادہ تفصیلات بتانا مناسب نہیں ، وزیراعظم: فوج نہ بھیجی جائے: اپوزیشن ارکان
اسلام آباد (وقائع نگار خصوصی+ نوائے وقت نےوز ) وزیراعظم محمد نواز شریف نے ایک مرتبہ پھر اپنے اس عزم کو دہرایا ہے کہ سعودی عرب کی علاقائی سالمیت کو اگر کوئی خطرہ ہوا تو پاکستان اسکا دفاع کریگا۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے اس حوالے سے فوجی قیادت سے بھی مشاورت کی ہے، دفتر خارجہ میں بھی اس سلسلے میں پیشرفت جاری ہے، پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں جو بھی فیصلہ ہوا اس پر من و عن عمل کیا جائیگا۔ ایران کو یمن کے حوالے سے اپنی پالیسی پر نظرثانی کرنی چاہیے، توقع ہے کہ ترکی کے صدر سعودی وزیر داخلہ اور ایرانی صدر کیساتھ ہونیوالی بات چیت کے حوالے سے آج ہمیں بتائیں گے، اسکے بعد ہم آئندہ کا لائحہ عمل طے کریں گے۔ انہوں نے ےہ بات پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہی۔ انہوں نے کہا کہ وزیر دفاع نے جتنی وضاحت کر دی اس سے زیادہ وضاحت مناسب نہیں، یہ ایک حساس معاملہ ہے اور اس میں احتیاط سے کام لینا ضروری ہے، بند کمرے میں جب ہم ملتے ہیں تو بہت سی باتیں کرتے ہیں۔ وزیراعظم محمد نواز شریف نے سےنےٹر مشاہد حسین سید کی تقریر کو سراہا اور کہا کہ ان کی تجاویز اچھی ہیں، پہلے ہم اکٹھے صلاح مشورہ کرتے تھے اب اسمبلی میں تجاویز اور مشاورت ہو رہی ہے، تمام دوستوں نے اچھی تجاویز دی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یمن کی صورتحال کے حوالے سے پاکستان اور ترکی کے موقف میں کافی حد تک یکسانیت پائی جاتی ہے، ترکی کے صدر کی ایران اور سعودی عرب کیساتھ ہونیوالی بات چیت کی تفصیلات سامنے آنے پر دیگر اسلامی ممالک کیساتھ بھی مسئلہ حل کرانے کے حوالے سے بات کی جائیگی، سعودی عرب نے پاکستان کو اپنی جن ضروریات سے آگاہ کیا ہے پارلیمنٹ اس سلسلے میں تجاویز دے ، یمن کی صورتحال انتہائی حساس معاملہ ہے، وزیراعظم نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ یہ معزز ایوان ہماری رہنمائی کرے، ہم ہیرا پھیری سے مینڈیٹ لینے ایوان میں نہیں آئے نہ اس غرض سے سیشن طلب کیا ہے، ہم آپ سے رہنمائی لینے آئے ہیں، حکومت نیک نیتی سے ارکان کی تجاویز سن رہی ہے، ان تجاویز کو پالیسی کی شکل دینے کے خواہاں ہیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ معاملات سلجھانے اور دوسرے ممالک کیساتھ ملکر مشاورت کرنے کی تجویز اچھی ہے، اس سلسلے میں میں نے ابھی تک صرف ترکی کا دورہ کیا ہے، ترکی کے صدر نے گزشتہ روز سعودی وزیر داخلہ سے ملاقات کی ہے، ہمارا ترکی کے ساتھ اب تک جو تبادلہ خیال ہوا ہے، ہم دونوں ممالک کی رائے کافی حد تک ملتی ہے، ترکی کے صدر ایران گئے ہیں، وہ ایرانی صدر کے ساتھ بات چیت کریں گے تاہم انہوں نے کہا کہ ایران کو یمن کے حوالے سے اپنی پالیسی پر نظرثانی کرنی چاہئے،۔ وزیراعظم نے کہا کہ ہم ترکی کے ساتھ مل کر دیگر اسلامی ممالک سے بھی بات کریں گے، انڈونیشیا اور ملائیشیا کے ساتھ بات چیت کا فیصلہ بھی اس کے بعد کیا جائے گا۔ وزیراعظم نے کہا کہ سعودی عرب نے ہمیں جن ضروریات کے حوالے سے بتایا ہے اس کے حوالے سے کافی تفصیلات اخبارات میں بھی شائع ہو چکی ہیں۔ اے ایف پی کے مطابق وزیراعظم نے کہا کہ ہمیں یمن جنگ کا حصہ بننے یا فوج بھیجنے کی کوئی جلدی نہیں ہے اور نہ ہی ہم نے کوئی خفیہ فیصلہ کرنا ہے ان کا کہنا تھا کہ ایران کو اس حوالے سے مذاکرات کا حصہ ہونا چاہیے اور انہیں یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ کیا اس حوالہ سے انکی پالیسی درست ہے یا نہیں ہم مصالحت کی کوشش کررہے ہیں۔ وزیراعظم کا کہنا تھا کہ حکومت نے یمن کی صورتحال کے بارے میں کوئی بات پوشیدہ نہیں رکھی۔ وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ارکان ِ پارلیمان کے مشوروں کو نیک نیتی کے ساتھ پالیسی کا حصہ بنائےں گے کیونکہ یمن کا مسئلہ ایک حساس مسئلہ ہے۔ انکا مزید کہنا تھا کہ ترکی کے صدر کی سعودی وزیر داخلہ سے ملاقات ہوئی ہے، ترک صدر سے مزید مشاورت کے بعد مشترکہ پالیسی بنائیں گے جبکہ ایران کے وزیر خارجہ بھی پاکستان آ رہے ہیں۔
اسلام آباد+ لاہور (وقائع نگار خصوصی+ خصوصی نامہ نگار+ نیوز ایجنسیاں) سپیکر سردار ایاز صادق کی زیر صدارت پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس دوسرے روز بھی جاری رہا جس میں اپوزیشن جماعتوں نے یمن فوج بھیجنے کی بجائے پاکستان کو ثالث کا کردار ادا کرنے کا مطالبہ کیا۔ عمران خان گذشتہ روز اجلاس میں شریک نہیں ہوئے۔ قائد حزب اختلاف خورشید شاہ نے کہا کہ حکومت اگر معاملے کی حساسیت کی وجہ سے یمن کی صورتحال میں سعودی عرب کی جانب سے عسکری تعاون کی درخواست پر ایوان میں کھل کر بات نہیں کر سکتی تو پارلیمانی جماعتوں کے سربراہان کا ان کیمرہ اجلاس بلا کر اعتماد میں لیا جائے، وزیراعظم نواز شریف کی موجودہ صورتحال میں ترکی کے صدر کے ساتھ مل کر کوشش کرنے کی تجویز خوش آئند ہے۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم نواز شریف نے ایوان میں اچھی بات کی ہے ہم بھی یہی چاہتے ہیں کہ مسئلہ حل ہو لیکن فوری فیصلہ نہ کریں، پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں تمام رہنماﺅں نے مثبت تقاریر کی ہیں اور حکومت کی تعریف بھی کی گئی۔ ہم وہی بات کرنا چاہتے ہیں جو پاکستان کے مفاد میں ہو، پارلیمنٹ ہی حکومت کو طاقت دیتی ہے۔ امیر جماعت اسلامی سینیٹر سراج الحق نے تجویز دی ہے کہ یمن میں قیام امن کےلئے ایک پارلیمانی وفد سعودی عرب بھیجا جائے، جس میں تمام سیاسی جماعتوں اور مسالک کے نمائندے شامل ہوں، یمن کی لڑائی میں پاکستان فریق بن گیا تو پاکستان مصالحت کرانے کے قابل نہیں رہے گا، اگر یمن کی لڑائی کو شیعہ سنی لڑائی بنایا گیا تو پھر پاکستان سمیت سارا عالم اسلام لپیٹ میں آ جائے گا، اگر کسی طاقت نے مکہ اور مدینہ کا رخ کیا تو صرف فوج نہیں بلکہ ساری قوم اور مسلمان ابابیلیں بن کر حرمین کا تحفظ کریں گے۔ جنگ کا فائدہ اسرائیل اور امریکہ کو ہو گا، پاکستان کو یمن کی صورتحال میں امن اور ثالثی کا کردار ادا کرنا چاہیے، سعودی عرب کے ساتھ دوستی کا حق یہ ہے کہ ہم سعودی عرب کو جنگ میں مبتلا ہونے سے بچائیں۔پاکستان ایران، ترکی اور سعودی عرب کو ساتھ ملا کر مسئلہ کے حل کےلئے کوشش کرے، پاکستان سعودی عرب کی مدد کی درخواست پر ضرور غور کرے تاہم اس بات کا خیال رکھے کہ ہماری افواج سعودی عرب سے باہرجنگی مہم میں استعمال نہ ہو۔ انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کی ایوانوں میں واپسی کا کریڈٹ ساری قوم کو جاتا ہے۔ قائد حزب اختلاف خورشید شاہ اور سپیکر بھی اس کریڈٹ کے مستحق ہیں۔ (ق) لیگ کے مشاہد حسین سید نے کہا کہ پاکستان کو سعودی عرب اور ایران کی پراکسی وار کا حصہ بننے کی بجائے یمن کی صورتحال کو سلجھانے کے لئے ثالث کا کردار ادا کرنا چاہئے ‘ یمن کی جنگ شیعہ سنی کی نہیں، اقتدار کی جنگ ہے، پاکستان اور ترکی مل کر اسلام آباد یا استنبول میں سعودی عرب اور ایران کے وزرا خارجہ کے درمیان امن مذاکرات کی میزبانی کریں۔ ایران کو شام اور اردن کی طرح یمن میں مداخلت نہیں کرنی چاہئے۔ بلوچستان نیشنل پارٹی کے سینیٹر میر حاصل خان بزنجو نے کہا کہ حکومت کو یمن جنگ میں حصہ نہیں لینا چاہئے۔ ایران سے دوستی کی ضرورت ہمیں بھی پڑھ سکتی ہے۔ غلام بلور نے کہا کہ پی ٹی آئی کے دوستوں کی واپسی پر انہیں خوش آمدید اور مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ اگر ہم یمن جنگ کا حصہ بنے تو یہ آگ ہمارے ملک کو بھی لپیٹ میں لے لے گی ہمیں مصالحت کی طرف جانا چاہئے اور فوجیں بھجوانے سے باز رہنا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ ہر مسلمان حرمین کے تحفظ کے لئے جانوں کی قربانی پیش کرنے کے لئے تیار ہے لیکن اگر ہم جنگ میں شریک ہوجائیں گے تو پھر صلح نہیں کراسکیں گے۔ سابق صدارتی ترجمان فرحت اللہ بابر نے کہا ہے کہ حملہ سعودی عرب پر نہیں یمن پر ہوا ہے، ہمیں تاریخ سے سبق سیکھنا چاہئے، سعودی عرب نے طیارے، بحری جہاز اور زمینی فوج مانگی ہے لیکن سعودی عرب کو لاجسٹک اور انٹیلی جنس شعبوں میں مدد دی جا سکتی ہے۔ فرحت اللہ بابر نے یمن کی صورتحال پر ان کیمرہ اجلاس بلانے کی بھی تجویز پیش کی۔ فرحت اللہ بابر نے کہا ہے کہ اگر خوانخواستہ ہمارے ایران سے حالات خراب ہو گئے تو پھر بلوچستان بھی خیبرپی کے بن جائے گا۔ وزیر دفاع اسمبلی میں کہ چکے ہیں کہ پاکستان یمن کی جنگ میں بڑی احتیاط کریگا تاہم انہوں نے عسکری مدد فراہم کرنے کے حوالے سے وضاحت نہیں کی جبکہ وزیراعظم نے جواب دیدیا کہ تمام چیزیں نہیں بتائی جا سکتی ہیں، ہمیں سعودی عرب کی ضرور مدد کرنی چاہئے ہمارے سعودی عرب کے ساتھ سکیورٹی معاہدے بھی ہیں لیکن حدود کا تعین کیا جائے۔وزیر دفاع نے بتایا کہ سعودی عرب نے فوجی دستے، ہوائی جہاز اور بحری امداد طلب کی ہے تاہم پاکستان کے جواب سے آگاہ نہیں کیا ۔ قومی اسمبلی میں فاٹا کے پارلیمانی لیڈر ڈاکٹر جی جی جمال نے کہا ہے کہ حکومت کی طرف سے یمن کی صورتحال پر مشترکہ اجلاس کی طلبی احسن اقدام ہے، توقع ہے کہ اس اجلاس میں حکومت کو موثر تجاویز دی جائیں گی جس کی روشنی میں فیصلہ کرنے میں آسانی ہو گی، یمن سے پاکستانیوں کے انخلاءکے حوالے سے پی آئی اے کا کردار احسن ہے، ان کو اعزازات دیئے جائیں۔ ڈاکٹر غازی گلاب جمال نے کہا کہ یمن کا بحران سیاسی ہے اور ہمیں دوسرے ملکوں کی جنگ میں نہیں کودنا چاہئے۔ اعجاز الحق نے کہا کہ آج وزیراعظم نے جو بات کی وہ پہلے کر دیتے تو میڈیا کے اندر موجود ابہام ختم ہو جاتا حکومت کی اچھی حکمت عملی جو کہ وہ تمام مسائل پر بیٹھ کر بات کرتے ہیں لیکن ماضی میں بھی تمام فیصلے مشاورت سے ہوئے سعودی عرب کو دھمکی پہلی مرتبہ یمن کی جانب سے موصول نہیں ہوئی بلکہ پہلے بھی یمن کی جانب سے سعودی بارڈر پر حملے ہو چکے ہیں۔ یمن کے معاملے پر ابھی تک پاکستان نے اچھا کردار ادا کیا۔حرمین شریفین کی حفاطت جیسے ٹاپک جذباتی ہیں لیکن پاکستان ایک ایٹمی ملک ہے اور اس کی جانی و مالی فوج ہے تو پاکستان کو سوچ سمجھ کر فیصلہ کرنا چاہئے ۔ ڈاکٹر جہانزیب جمال الدینی نے کہا کہ اگر سعودی عرب کیلئے یمن میں فوج کو اتارا گیا تو کیا ہم افغان جنگ بھول گئے ہیں اگر کام کرنا ہے تو پہلے افواج پاکستان پاک سر زمین سے تمام دہشت گردوں کا خاتمہ کرے۔ پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس آج صبح ساڑھے دس بجے تک ملتوی کر دیا گیا۔یمن کی صورتحال پر بحث آج بھی جاری رہے گی۔