• news

"ون ڈش …پابندی لازم"

 سپریم کورٹ نے شادی کی تقریبات کے دوران غیر ضروری ڈیکوریشن نہ کرنے اور ون ڈش کی پابندی پر عمل درآمد کا حکم دے دیا ہے۔ عدالتی احکامات کے مطابق شادی بیاہ کی تقریبات میںصرف ایک بڑی ڈش یعنی سالن ، نان ، چاول ، ایک قسم کا سلاد اور دہی پیش کی جاسکتی ہے۔ انتظامیہ کا کہناتھاکہ ابتدائی طورپر کمرشل سطح پر یہ پابندی لازم ہوگی ، بعدمیں ڈیکوریشن اور کیٹرنگ کمپنیوں کو بھی پابندکیاجائے گا۔
پاکستان جیسے غریب ملک میں جس کی معیشت بدحالی کا شکار ہے۔ عوام توانائی کے بحران ، مہنگائی اور بے روزگاری کے چنگل میں پھنسے ہوئے ہیںوہاں شادی کی تقریبات پر بے جا اخراجات کرنا کسی بھی اعتبار سے لائق تحسین ہے ۔سپریم کورٹ کے یہ احکامات عام آدمی کے  لیے آسودگی کا باعث ہیں۔ایک اندازے کے مطابق شادیوں کی تقریبات میں بیس سے تیس فی صد خوارک ضائع ہو جاتی ہے۔ پاکستان میں شادی کی تقریبات ایک مذہبی اور سماجی ضرورت کی بجائے نمود و نمائش اور بے جا اسراف کا مظہر ہیں۔
عالمی بینک کے مطابق پاکستان میں عوام کی فی کس آمدنی آٹھ سو ڈالر سالانہ ہے اور افراط زر کی شرح نو فی صد سے زیادہ ہے ۔ اس پس منظر میں شادی بیاہ پر اٹھائے جانے والے لاکھوں روپے کے اخراجات کوئی کیسے پورے کر سکتا ہے۔سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل در آمد کو یقینی بنانا پاکستانی عوام کے مفاد میں ہے اس حوالے سے پاکستانی میڈیا، اساتذہ کرام اور این جی اوز کو بھی اپنا کردار ادا کرنا چاہئیے۔ہمارے ہاں شادی بیاہ میں غیر ضروری رسموں نے گہرا رواج پا لیا ہے۔ایک تحقیق کے مطابق ایک شادی میں اکثر گھرانے کم و بیش سات قسم کی تقریبات کے اہتمام پر غیر ضروری اخراجات کرتے ہیں۔شادی کی پہلی تقریب "رسم ہاں" میں ہوتی ہے۔ یہ تقریب عموماً لڑکی والوںکے گھر ہوتی ہے جس میں دونوںخاندانوں کے بڑے اور قریبی عزیز شریک ہوتے ہیں۔دوسری رسم منگنی کہلاتی ہے جس میںانگوٹھی ، زیورات اور کپڑوں کا تبادلہ اورکھانے پینے کا اہتمام کیا جاتا ہے۔تیسری رسم ڈھولکی کہلاتی ہے یہ رسم دونوں اطراف کبھی تین دن کے لیے اور کبھی ایک ہفتہ تک جاری رہتی ہے۔ چوتھی رسم ، رسم حنا یا مہندی کہلاتی ہے۔ اس رسم کی ادائیگی پر اب تو شادی کے برابر اخراجات آتے ہیں۔پانچویں رسم بارات کا استقبال ہے اس کے لیے پنڈال کو خوب سجایا جاتا ہے۔ سٹیج کی تزین و آرائش پر لاکھوں روپے خرچ کئے جاتے ہیں۔ نکاح کی رسم اد اہوتی ہے اور پھر بارات کے کھانے کا اہتمام۔ چھٹی رسم دعوت ولیمہ ہے جس پر بھی لاکھوں روپے خرچ کئے جاتے ہیں۔ساتواں مرحلہ ہنی مون کہلاتا ہے جس کے اخراجات کا تخمینہ بھی لاکھوں روپے بنتا ہے۔
شادی بیاہ کی ان رسومات اور اس پر اٹھنے والے اخراجات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستانی معاشرت رسم و رواج اور جھوٹے مرتبے کی خاطر اپنے لیے سنگین مالی مسائل پیدا کرتی ہے۔  اب یہ حکومت کا فرض ہے کہ اس پر من و عن عمل در آمد کرائے۔ وزیر اعظم نواز شریف اور پنجاب کی حکومت ابتداء ہی سے ون ڈش کی حامی رہی ہے اب جبکہ عدالت عالیہ نے بھی فیصلہ صادر کر دیا ہے ، ملک بھر کی انتظامیہ کو اس  معاملے میں سستی اور مصلحت کا شکار نہیں ہونا چاہئیے۔پاکستانی میڈیا کو بھی اس عمل میں بھر پور کردار ادا کرنا چاہئیے۔بھارت کی قومی مشاورتی کونسل نے بھی پاکستان میں ون ڈش کے قانون کا جائزہ لینا شروع کر دیا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ بھارت کی 63فی صد آبادی بھوک اور غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہی ہے اسے سماجی تقریبات شادی وغیرہ میں خوراک کی ضیاع کو روکنے کے لیے قانون سازی کرنی چاہئیے۔بھارتی مشاورتی کونسل نے پاکستانی ون ڈش کے قانون کی طرز پر بھارت میں بھی اس کی پابندی کے لیے قانون سازی کی تجویز پیش کر دی ہے۔کونسل نے تو ون ڈش سے آگے بڑھ کر ان تقریبات میں مہمانوں کی تعداد بھی مقرر کرنے کی تجویز دی ہے۔ اس تجویز کے مطابق شادی بیاہ میں مہمانوں کی تعداد سو سے زائد نہیں ہونی چاہئیے۔
شادی بیاہ کی تقریبات میں بے جا اخراجات اور اپنی چادر سے بڑھ کر پائوں پھیلانا کسی بھی طرح مناسب نہیں۔ اسراف حد اعتدال سے نکل جانے کے معنی میں ہے۔ وسیع معنی کہ لحاظ سے ہر قسم کے کام میں تجاوز کا مفہوم رکھتا ہے لیکن عام طو ر پر اخراجات میں حد سے تجاوز کے لیے بولا جاتا ہے۔ قرآن میں اسراف کی بہت ممانعت کی گئی ہے اور معاشرے پر اس کے بْر ے اثرات کو بھی بیان کیا گیا  ہے ۔اللہ پاک نے بھی قرآن کریم میں اسراف سے روکا ہے۔"اسراف نہ کرو بلا شبہ اللہ مسرفین کو پسند نہیں کرتا۔(الانعام141)اور کھائو پیو، اسراف نہ کرو،بلا شبہ اللہ مسرفین کو پسند نہیں کرتا(الاعراف 31)اور تیسری جگہ فرما یا کہ "اور ہم نے اسراف کرنے والوں کو ہلاک کر دیا۔(الانبیائ9)قرآن پاک نے انسان کو 1400 سال پہلے اسراف کے نفصانات سے آگاہ کر دیا تھا۔ اللہ تعالی ہمیں روز مرہ زندگی میں اسراف سے بچا ئے اور زیادہ سے زیادہ صدقہ و خیرات کی توفیق دے۔تاکہ معاشرے سے بھوک اور ا فلاس کو ختم کیا جا سکے۔

ای پیپر-دی نیشن