ایران مداخلت نہ کرے، یمن پر فضائی حملے جاری رہیں گے: سعود الفیصل
ریاض + صنعا (نوائے وقت رپورٹ + رائٹر + اے ایف پی) سعودی عرب نے ایرانی حکومت کے اس مطالبے کو مسترد کر دیا ہے کہ اسے یمن پر فضائی حملے بند کرکے سیز فائر کرنا چاہئے۔ سعودی وزیر خارجہ سعود الفیصل نے تنبیہ کی ہے کہ یمن پر حملے جاری رہیں گے اور ایران کو اس تنازعے میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے۔ سعودی وزیر خارجہ سعود الفیصل نے ریاض میں اپنے فرانسیسی ہم منصب لاراں فابیوس کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس میں کہا، ’’ایران ہم سے یمن میں لڑائی روکنے کا مطالبہ کیسے کر سکتا ہے۔ ہم نے یمن پر حملوں کا فیصلہ وہاں کی جائز حکومت کی مدد کے لیے کیا ہے۔ شہزادہ سعود الفیصل نے کہا کہ سعودی عرب ایران کے ساتھ حالت جنگ میں نہیں۔ سعودی عرب کی قیادت میں اتحاد نے 26 مارچ کو یمنی صدر عبد ربہ منصور ہادی کی دعوت پر حوثیوں کے خلاف حملے شروع کئے تھے۔ یمن میں ایران کے کردار نے مسئلے کو بگاڑا ہے اور اس کی وجہ سے ملک میں تشدد کے واقعات میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ ’’ایران ہمیں یمن میں لڑائی ختم کرنے کے لئے کیسے کہہ سکتا ہے۔ وہ اس لڑائی میں مداخلت نہ کرے۔ ہم یمن میں مجاز اتھارٹی کے دفاع کے لیے گئے تھے اور ایران یمن کا داروغہ (انچارج) نہیں ہے۔ انہوں نے ایران کے ساتھ جوہری پروگرام کے تنازعے پر طے پائے فریم ورک سمجھوتے کے حوالے سے بھی اظہار خیال کیا اور کہا کہ یہ خطے کی سکیورٹی میں اضافے کی جانب اہم قدم ثابت ہوسکتا ہے۔ فرانسیسی وزیر خارجہ نے حوثیوں کے خلاف سعودی عرب کی کارروائی کی حمایت کی ہے۔ دریںاثناء سعودی عرب اور اتحادی طیاروں نے یمن کے فوجی کیمپ کو نشانہ بنایا جس سے یمن کے شہر تیز میں 8 افراد ہلاک ہوگئے۔ ذرائع کے مطابق مرنے والے عام شہری ہیں۔ رائٹر کے مطابق 2012ء میں اقتدار سے محروم ہونے کے باوجود سابق یمنی صدر علی عبداللہ صالح اب بھی بااثر تصور کئے جا رہے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق موجودہ صورتحال میں مشرق وسطیٰ میں مزید عدم استحکام پیدا ہونے کا خدشہ ہے اور اس سے یمنی ریاست کی تباہی کا بھی خطرہ ہے۔ واضح رہے کہ 26 مارچ سے اب تک یمن پر 1200 فضائی حملے کئے جا چکے ہیں۔ یمن کے 22 میں سے 15 صوبوں میں لڑائی جاری ہے۔ ان میں عدن، دالح، لج، ابیان، شبوا، تیز، اب، یائیدہ، حدیدہ، ایماہ، امران، حجہ، سعدہ، جوف اور میرب شامل ہیں۔ دریں اثنا یمن کے جنوب میں حوثی باغیوں کے خلاف برسرپیکار جنگجوؤں نے ایرانی فوج کے دو افسروں کو حراست میں لینے کا دعویٰ کیا ہے۔ جرمن ریڈیو کے مطابق مقامی جنگجو ملیشیا کی جانب سے بتایا گیا ہے کہ یہ ایرانی فوجی حوثی باغیوں کو ہدایات دے رہے تھے۔ تہران حکومت یمن میں حوثی باغیوں کی امداد کے الزامات کی تردید کرتی آئی ہے۔ برطانوی خبر رساں ادارے کے مطابق اگر اس دعوے کی تصدیق ہو گئی تو اس سے سعودی عرب اور ایران کے درمیان تعلقات میں مزید کشیدگی پیدا ہو سکتی ہے۔ دوسری جانب ایران نے اسکی تردید کی ہے۔ رائٹر کے مطابق یمن سے 143 غیرملکیوں کو نکالا گیا ہے جبکہ ابھی 16 ہزار وہیں پھنسے ہوئے ہیں۔ فرانسیسی وزیر خارجہ فابیئس نے حوثیوں کے خلاف سعودی عرب کی مہم کی حمایت کی ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بانکی مون نے کہا ہے کہ بحران کا حل مذاکرات سے نکالا جائے۔ یمن کے صدر ہادی نے اپنے سابق وزیراعظم خالد بہا کو نائب صدر مقرر کیا ہے۔ روسی حکام کے مطابق یمن سے 650 روسی فضائی اور سمندری راستے سے نکال لئے گئے ہیں۔