تم نے جسے ہونے نہ دیا ہو کے رہے گا
23 مارچ کی شاندار پریڈ ہوئی۔ پاکستان کی محبت دل میں تڑپتی رہی۔ میرا خون ابھی تک پریڈ کر رہا ہے اور میرے اندر سے پاکستان زندہ باد پاک فوج زندہ باد کے نعرے کی گونج بلند ہو رہی ہے اور میں سربلند ہو رہا ہوں۔ ایسی شاندار پریڈ دنیا میں کہیں نہیں ہوئی ہو گی۔
میں نے دیکھا کہ ہمارا بہادر گریس فل ثابت قدم اور سنجیدگی کا پہاڑ کوہساروں کی طرح بلند و بالا سپہ سالار آرمی چیف جرنیل سٹیج پر پانچویں نمبر پر کھڑا ہے۔ وہ سچا عسکری لیڈر ہے۔ کیا کسی نے اسے قہقہہ لگاتے ہوئے دیکھا ہے۔ مگر ان کے جاہ و جلال والے چہرے پر زیرلب مسکراہٹ کو دیکھا ہے۔ اس کے لئے کوشش کرنا پڑتی ہے۔ یہاں زیرزمین اور زیر لب میں فرق نہیں ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ سیاسی قیادت ہی اس ملک کا مقدر ہے۔ اگرچہ ہماری تاریخ جرنیلوں کی تاریخ ہے اب جرنیلوں کا سیاسی زمانہ ختم ہو گیا ہے؟
مگر میری دردمندانہ گذارش ہے کہ سیاسی قیادت عسکری قیادت کے ساتھ مشاورت سے کام چلائے۔ اب عسکری قیادت کا سیاست میں عمل دخل ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ ملٹری براہ راست نہ آئے مگر پاکستان اور پاکستانی سیاست میں کردار ادا کریں۔ میں نے کبھی یہ جملہ لکھا تھا جو ہماری قومی قیادت کے المیے کو ظاہر کرتا ہے کہ ہمارے جرنیلوں نے سیاستدان بننے کی کوشش کی اور ہمارے سیاستدانوں نے جرنیل بننے کی کوشش کی۔ یہ ناکام کوشش تھی۔ دونوں ناکام ہوئے اور بدنام ہوئے سیاسی اور فوجی حکمران ایک جیسے ثابت ہوئے۔
کیا وہ نمرود کی خدائی تھی
بندگی میں مرا بھلا نہ ہوا
میرا خیال ہے کہ جب کوئی جرنیل صدر پاکستان بنتا ہے تو وہ سیاستدان بن جاتا ہے اور جب کوئی سیاستدان حکمران بنتا ہے تو وہ بہت بڑا ڈکٹیٹر بن جاتا ہے۔ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اگرچہ صدر زرداری کا ملازم تھا مگر وہ بھی ڈکٹیٹر بننے کی بھونڈی کوشش کرتا رہا۔ اس نے کرپشن میں آمریت کی انتہا کر دی۔ اس کے لئے ’’ایم بی بی ایس‘‘ کی اصطلاح مشہور ہوئی بلکہ بدنام ہوئی۔ ایم بی بی ایس یعنی میاں بیوی بچوں سمیت پورے گھرانے بلکہ پورے خاندان نے کرپشن میں ریکارڈ قائم کر دیے اور جو آف دی ریکارڈ ہے وہ میں کبھی منکشف کروں گا۔ ’’صدر‘‘ زرداری اور اس کے خاص دو ساتھیوں کی ناراضگی کا خطرہ ہے جو اس کے لئے جیل کے خدمت گزار تھے۔ مگر اگلی حکومت پر گیلانی صاحب نے کوئی مقدمہ نہ بنایا۔ عیش بلکہ عیاشی کر رہے ہیں۔ ان کے دونوں بیٹے بھی اپنی جوانی کو دیوانی ثابت کرنے کے بڑے ثابت قدم ہو رہے ہیں۔
یہ بتایا جائے کہ پاکستان میں فوجی حکومتیں بھی آئیں۔ کسی سیاستدان بیورو کریٹ اور امیر کبیر کرپٹ کے خلاف نیب نے کوئی فیصلہ نہیں کیا۔ کسی ملزم بلکہ مجرم کو سزا نہیں ملی۔ ’’صدر‘‘ زرداری نے اپنے دور میں کسی کو کرپشن سے نہ روکا۔ ایک دفعہ … نے ان سے کہا کہ فلاں بندہ کرپشن میں حد سے گزر گیا ہے۔ ’’صدر‘‘ زرداری نے کہا تو پھر کیا ہوا؟ کیا وہ میرے ساتھ وفادار اور فرماں بردار ہے۔ کہا گیا کہ وہ تو ہے۔ تو پھر ’’صدر‘‘ زرداری نے کہا کہ وہ بے فکر رہے۔ اسے کچھ نہیں ہو گا۔ کوئی کرپٹ نہیں ہے تو وہ ہمارا ’’دوست‘‘ نہیں ہو سکتا۔ وہ بلاول سے رابطہ کرے اور لندن چلا جائے۔
صدر جنرل مشرف نے ’’صدر‘‘ زرداری کے لئے این آر او کیا۔ اس سے سب سے بڑا فائدہ زرداری صاحب کو ہوا۔ ان کے ایوان میں پہنچنے کے لئے ان کی بیوی یا ’’بی بی‘‘ کی شہادت کے علاوہ این آر او کی وجہ سے ممکن ہوا۔ این آر او سے اور بھی کئی لوگوں کو بہت فائدہ ہوا ان میں زیادہ تر ’’صدر‘‘ زرداری کے ’’دوستوں‘‘ کی تھی جو ’’دوست‘‘ نہ تھے وہ ’’دوست‘‘ بننے کی پوری صلاحیت رکھنے تھے۔
صدر زرداری کی پوری کابینہ وزیراعظم گیلانی سمیت سب وزیروں نے صدر جنرل مشرف سے حلف لیا۔ نواز شریف کے وزیروں نے بھی ان سے حلف لیا۔ اب وہی وزیرجنرل مشرف کو برا بھلا کہتے ہوئے نہیں تھکتے۔ خواجہ آصف نے پارلیمنٹ میں آنے پر عمران اور سارے ’’عمرانیوں‘‘ کو شرم دلائی ہے۔ مگر خود انہیں شرم نہیں آئی۔ اس سیاسی حمام میں سب ننگے ہیں اور ننگے کو ننگے سے شرم نہیں آتی۔
خواجہ آصف 23 مارچ کی پریڈ میں اس قطار میں کھڑے تھے جہاں بہادر جرنیل آرمی چیف جنرل راحیل شریف بھی کھڑے تھے۔ وہ ایک کمپلیکس فری آدمی ہے مگر خواجہ آصف کمپلیکس فری نہیں۔ انہیں ہر چیز فری ملی ہے۔ کمپلیکس بھی چونکہ فری ملا ہے اس لئے ان کے پاس بہت ہے۔ مال مفت دل بے رحم۔ انہوں نے صرف کشمالہ طارق کی توجہ حاصل کرنے کے لئے تھوڑی سی کوشش کی ہے۔ کشمالہ طارق ان کی تربیت کر رہی ہے مگر کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ ریحام خاں کی تربیت سے آخر کار فائدہ عمران کا ہو گا۔ ریحام خان کا انداز زندگی عزت مندانہ نظر آتا ہے۔ میری گزارش خواجہ آصف سے ہے کہ وہ کشمالہ طارق کو ساتھ ساتھ رکھے تو اسے فائدہ ہو گا۔ میرا خیال ہے نوازشریف نے جنرل راحیل شریف سے مسلسل ملاقاتیں رکھی ہیں تو انہیں بہت فائدہ ہوا ہے۔ حیرت ہے کہ فوجی افسران میں کوئی موروثیت نہیں۔ اپنی اہلیت پر کوئی آگے آتا ہے سنا ہے کہ اس میں بہت سو بر مریم نوازشریف کی مشاورت کا عمل دخل بھی ہے۔ مریم نواز نے تنقید اور تعریف میں جس تحمل اور تدبر کا مظاہرہ کیا ہے وہ قابل ستائش ہے۔ پاکستان میں ہر طرف موروثی سیاست کا زور ہے۔ اسمبلیوں میں کون ہے جو کسی کا بیٹا، بھتیجا، بیٹی، بھانجی نہیں ہے۔ خواجہ آصف خواجہ صفدر کا بیٹا ہے اور اس میں اپنے والد جیسی کوئی خصوصیت نہیں ہے جس میں اپنی صفات اور صلاحیتیں موجود ہیں۔ اسے موروثیت کا طعنہ نہیں دینا چاہئے۔ ایسے لوگ کم ہیں کم کم ہیں۔ مریم نواز نے اپنے والد کی وجہ سے اپنے آپ کو نہیں منوایا۔ اس نے اپنی صلاحیتوں کو ثابت کیا ہے۔ اس کے شوہر کیپٹن صفدر کو میں دوست رکھتا ہوں مگر مریم اس سے کہیں آگے ہے۔ میں کبھی مریم نواز سے نہیں ملا۔ میں سیاسی لوگوں کو نہیں ملتا مگر مجھے پتہ چل جاتا ہے کہ کون کیا ہے۔ مجھے ایک شعر برادر جلیل نے سنایا۔ جلیل ایک جلیل القدر شاعر ہے۔ اتنا نظریاتی ثابت قدم آدمی میں نے نہیں دیکھا وہ جینوئن دانشور ہے۔ اس نے کبھی سچائی پر کمپرومائز نہیں کیا۔ وہ بے نیاز آدمی ہے۔ پاکستان کے لئے لازوال محبت رکھتا ہے اور اس میں اٹل ہے جلیل عالی کے اس شعر پر غور کریں سیاسی قیادت اور عسکری قیادت والے دونوں؟
دربند ہوا ختم ہوئی مہلت توبہ
تم نے جسے ہونے نہ دیا ہوکے رہے گا