اوباما ایران کی بے جا حمایت کے معاملے پر برہم
واشنگٹن (بی بی سی ) امریکی صدر براک اوباما نیایران کے جوہری پروگرام سے نالاں امریکی کانگریس کے ارکان پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایران کے جوہری معاملے پر امریکہ کی بے جا حمایت کا معاملہ بہت زیادہ طول پکڑ گیا ہے۔کیری نے بھی کہا کانگریس مداخلت نہ کرے، یاد رہے کہ امریکی کانگریس میں شامل بعض ری پبلکنز کا موقف ہے کہ جوہری معاہدے میں ایران کو بہت زیادہ چھوٹ دی گئی ہے۔31 مارچ کو دنیا کی چھ اہم قوتوں کے ساتھ مذاکرات کے طویل سلسلے کے بعد ایران کے حتمی جوہری پروگرام کے لیے ایک عبوری معاہدے پر اتفاق کیا گیا تھا۔اس معاہدے کے تحت ایران کو جوہری ہتھیار بنانے سے باز رکھنے کے لیے اس پر عائد پابندیوں میں مرحلہ وار کمی کرنے کی بات بھی شامل ہے۔معاہدے کے اس خاکے کے بعد جامع معاہدے کے لیے 30 جون کی ڈیڈ لائن طے کی گئی ہے اور آگے بھی سخت مرحلہ درپیش ہے۔پاناما میں ہونے والے ایک علاقائی اجلاس کے بعد صدر اوباما نے کہا کہ وہ اس بارے میں ’پوری طرح مثبت‘ ہیں کہ یہ معاہدہ ایران کو جوہری ہتھیار سے دور رکنے کے لیے یقینی طور پر ضامن ہے۔صدر اوباما نے کہا کہ خارجہ پالیسی چلانے کے لیے ایسی بے جا مداخلت کوئی طریقہ نہیں۔انھوں نے کہامجھے سمجھ میں نہیں آتا کہ آج کل ہر کوئی مستقبل کے بارے میں پیش گوئی کرنے پر اس قدر کیوں محنت کر رہا ہے۔اس سے قبل ایران کے روحانی پیشوا آیت اللہ علی خامنہ ای نے کہا کہ حتمی معاہدے کے نتیجے میں ایران سے تمام پابندیاں فوری طور پر ہٹا لی جائیں۔صدر اوباما نے سنیچر کو کہا کہ خامنہ ای صرف اپنے ملک کی داخلی سیاست سے خطاب کر رہے تھے۔انھوں نے کہا کہ روحانی پیشوا جیسے اہم خطاب کے باوجود انھیں اپنے حلقے کے بارے میں سوچنا پڑتا ہے۔حتمی معاہدے کو تیار کرنے کے شاید بہت سے طریقے ہوں گیجس سے ان کے وقار، ان کے نظریات، ان کی سیاست کو اطمینان حاصل ہو لیکن وہ ہمارے بنیادی قابل عمل مقصد پورا کرتا ہو۔انھوں نے بعض ریپبلیکنز کے رویوں پرتنقید کی جو کہ ایران کے ساتھ ہونے والے جوہری معاہدے کے بارے میں بہت سے خدشات رکھتے ہیں۔