پالیسی بیان میں پارلیمانی قرارداد کی واضح مخالفت، ’’غیر جانبدار‘‘ کا لفظ غائب
لاہور (مبشر حسن/ نیشن رپورٹ) وزیراعظم نے یمن کے حوالے سے پالیسی بیان کو پارلیمنٹ کی مشترکہ قرارداد کے مترادف قرار دیا ہے تاہم اس بیان کی عبارت پر غور کیا جائے تو اس میں چند واضح تبدیلیاں نظر آرہی ہیں۔ قرارداد میں ’’غیر جانبدار‘‘ کا لفظ تحریک انصاف کے اصرار پر شامل کیا گیا لیکن وزیراعظم کے بیان میں سے یہ لفظ موجود نہیں تھا۔ واضح رہے اسی لفظ کی وجہ سے گلف ممالک کی جانب سے شدید ردعمل سامنے آیا تھا۔ قرارداد میں کہا گیا تھا کہ ثالث کا کردار اسی صورت میں ممکن ہوگا جب غیر جانبدار رہا جائے۔ تاہم اب وزیراعظم کے بیان میں کہا گیا ہے کہ پاکستان آنے والے دنوں میں سعودی قیادت کی مشاورت سے مسئلے کے حل کیلئے سفارتی کوشش بروئے کار لائے گا۔ اس عبارت میں سفارتی رول کے لئے غیر جانبداری ہونے کا ضروری تقاضا کہیں گم ہوگیا ہے۔ قرارداد میں فریقین کو مسئلہ مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کا کہا گیا اور حکومت سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ وہ سیز فائر کرانے کیلئے سلامتی کونسل اور او آئی سی سے فوری رجوع کرے۔ اب وزیراعظم کے پالیسی بیان میں ایک قانونی حکومت کو گرانے پر حوثیوں اور دیگر نان سٹیٹ ایکٹرز کی مذمت کی گئی ہے۔ پالیسی بیان میں حوثیوں کی شدید مذمت کے ساتھ وہاں کے انسانی حالات میں تیزی سے آنے والی خرابی پر بھی تحفظات کا اظہار کیا گیا ہے۔ پارلیمنٹ کی قرارداد میں حوثیوں کی مذمت نہیں کی گئی تھی۔ وزیراعظم نے پالیسی بیان میں میڈیا کے اندازوں پر بھی پاکستان اور عرب ممالک میں بداعتمادی پھیلانے والی رپورٹوں پر الزام لگایا ہے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ میڈیا نے قرارداد پر مذہبی پارٹیوں کے ردعمل کو ہی زیادہ کوریج دی ہے۔