”جناب ِالطاف حسین!آپ بھٹو نہ بنیں!“
ایم کیو ایم کے مقتُول کنوینز ڈاکٹر عمران فاروق کے مبیّنہ قاتلوں محسن علی سیّد اور محمدکاشف خان کے "Sponser" کراچی کے معظم علی خان کی گرفتاری کے بعد اُسے ڈاکٹر عمران فاروق قتل کیس کا مرکزی ملزم "Principal Accused" قرار دے دیا گیا ہے۔ وفاقی وزیرِ داخلہ چودھری نثار خان نے 13اپریل کو اسلام آباد میں مِیڈیا سے خطاب کرتے ہُوئے کہا کہ ”ڈاکٹر عمران فاروق قتل کیس صِرف برطانیہ کے لئے ہی نہیں بلکہ پاکستان کے لئے بھی امتحان بنا ہُوا ہے کیونکہ دِن دیہاڑے لندن میں ایک پاکستانی کا قتل ہُوا اور ہم اِس کیس کو اُس کے منطقی انجام تک پہنچانے کی کوشش کر رہے ہیں“۔
لندن میں جیو نیوز کے نمائندے مرتضیٰ علی شاہ نے بتایا کہ”سکاٹ لینڈ یارڈ کے ذرائع کے مطابق ڈاکٹر عمران فاروق خان کے مبیّنہ قاتلوں محسن علی سیّد اور محمدکاشف خان کو برطانیہ کا سٹوڈنٹس ویزا دِلوانے کا اہتمام ملزم معظم خان نے ہی کیا تھا اور ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل کی "Foundation" بھی اُسی نے تیار کی تھی۔ اُدھر کراچی میں ایم کیو ایم کے ایک رہنما جناب حیدر عباس رضوی نے ایک نیوز چینل پر کہا کہ”ایم کیو ایم ڈاکٹر عمران فاروق قتل کیس میں برطانوی حکومت اور وہاں کی تمام تحقیقاتی ایجنسیوں سے مکمل تعاون کر رہی ہے اور اُسے یقین ہے کہ برطانوی عدالتیں انصاف کے تقاضوں کو پورا کرتے ہُوئے کسی نتیجے پر پہنچیں گی“۔
جناب الطاف حسین کا ڈاکٹر عمران فاروق قتل کیس کے مرکزی ملزم معظم خان سے کوئی تعلق ہے یا نہیں؟ فی الحال یہ بات سامنے نہیں آئی لیکن جون 2013 ءمیں جب ڈاکٹر عمران فاروق قتل کیس کی تفتیش کے سِلسلے میں سکاٹ لینڈ یارڈ اور لندن کی میٹروپولیٹن پولیس کے افسروں/اہلکاروں نے الطاف حسین کے گھر چھاپہ مارا تھا تو اُس کے فوراً بعد جنابِ الطاف حسین نے ویڈیو لنک کے ذریعہ کراچی میں ایم کیو ایم کے لیڈروں اور کارکنوں بلکہ پوری قوم سے خطاب کرتے ہُوئے کہا تھا کہ ”سکاٹ لینڈ یارڈ اور لندن میٹروپولیٹن پولیس کے افسران اور اہلکار جو چیزیں میرے گھر سے لے گئے تھے مُجھے اُن کی فہرست نہیں دی گئی تھی۔ کروڑوں لوگوں کے قائد (الطاف حسین) کے گھر پر چھاپے کے بعد اخلاقی تقاضا یہی ہے کہ مَیں ایم کیو ایم کی قیادت سے دستبردار ہو جاﺅں“ لیکن رابطہ کمیٹی کے ارکان اور کارکنوں کے اصرار پر الطاف حسین قیادت سے دستبردار نہیں ہُوئے۔
برطانوی شہری ہونے کے باوجود جناب الطاف حسین نے اپنے اُس خطاب میں برطانیہ کے لئے ”برطانوی سامراج“ کی ترکیب استعمال کرتے ہُوئے کہا تھا کہ ”امریکہ اور برطانیہ کی سٹیبلشمنٹ کے لئے کسی شخص کو مروانا مشکل کام نہیں ہے“۔ اپنے اِس خطاب میں جنابِ الطاف حسین نے یہ بھی بتایا کہ ”کِس طرح برطانوی لوگ تاجر بن کر ہندوستان آئے اور تاجدار بن گئے؟ اور پھر کِس طرح ہندوستان کے لیڈروں محمد علی جناح، علامہ اقبال، گاندھی جی، اور سردار بھگت سنگھ نے جدوجہد کرکے انگریزوں کو ہندوستان سے نکالا اور برطانوی مظالم سے ہی آزادی کی تحریکوں نے جنم لِیا“۔ جناب الطاف حسین نے 1919ءمیں امرتسر کے جلیانوالہ باغ میں جنرل ڈائر کے حُکم پر نہتے ہندوستانیوں پر فائرنگ کے نتیجے میں ہلاکتوں کا ذکر کرتے ہُوئے کہا تھا کہ دُنیا کے مختلف انقلابی لیڈروں چِین کے چیئرمین ماﺅزے تنگ، شمالی کوریا کے کامریڈ کِم اُل سُنگ، ویت نام کے ہوچی منہہ کے بعد کہا تھا کہ ”اِس وقت ساری دُنیا میں مَیں اکیلا لیڈر ہُوں، جو غریبوں کے حق میں انقلاب کی بات کرتا ہے“۔
جنابِ الطاف حسین نے یہ بھی کہا تھا کہ ”اگر مجھے برطانیہ میں مار دِیا گیا تو پاکستان میں سچّا انقلاب آئے گا۔ مَیں نے برطانیہ میں کوئی قانون نہیں توڑا اور نہ توڑوں گا۔ مجھے ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل میں پھنسانے کی سازش کی جا رہی ہے“۔ جناب الطاف حسین نے یہ بھی اعلان کیا تھا کہ”مَیں برطانیہ کی عدالت میں اپنا مقدمہ خود لڑوں گا اور اپنی ترجمانی کے لئے کوئی وکیل، بیرسٹر یا سالِسٹر مقرر نہیں کروں گا“۔ فی الحال کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ ڈاکٹر عمران فاروق کے مبیّنہ قاتلوں محسن علی سیّد اور کاشف خان اور اِس قتل کی "Foundation" تیار کرنے والے معظم خان کا جناب الطاف حسین سے کوئی تعلق ہے بھی یا نہیں؟ لیکن میری اُن سے درخواست ہے کہ وہ اپنا مقدمہ لڑنے کے لئے برطانیہ کے یا برطانیہ سے فارغ التحصیل پاکستان کے کسی تجربہ کار اور ماہر وکیل، بیرسٹر یا سالسٹر کی خدمات ضرور حاصل کر لیں۔ برطانیہ اور پاکستان کا کوئی بھی نامور قانون دان ”کروڑوں لوگوں کے لیڈر“ کا مقدمہ بغیر فِیس لئے لڑنے میں فخر محسوس کرے گا“۔
نواب محمد احمد خان کے قتل کی سازش میں جناب ذوالفقار علی بھٹو کو "Principal Accused" قرار دیا گیا تھا۔ جناب بھٹو خود بہت بڑے قانون دان تھے۔ وہ فیلڈ مارشل ایوب خان کے وزیر خارجہ ، جنرل یحییٰ خان کے نائب وزیراعظم اور وزیرِ خارجہ رہے تھے اور پھر سویلین چیف مارشل لاءایڈمنسٹریٹر، صدرِ پاکستان اور وزیرِاعظم بھی رہے۔ عالمی سطح پر جناب ذوالفقار علی بھٹو، جناب الطاف حسین سے بہت بڑے لیڈر تھے لیکن انہوں نے اپنے خلاف قتل کا مقدمہ لڑنے کے لئے تجربہ کار اور نامور وُکلاءکی خدمات حاصل کی تھیں۔ جنابِ ذوالفقار علی بھٹو سے نا دانستہ غلطی یہ ہُوئی کہ انہوں نے اپنے خلاف فوجداری مقدمے کو سیاسی بنا دیا۔ انہوں نے اپنی پُرزور تقریروں سے ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کو اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کا"Floor" بنانے کی کوشش کی لیکن ناکام رہے۔ ستمبر 1965ءمیں جنابِ بھٹو نے بھارت کو للکارا اور جب اعلان کیا کہ ”مقبوضہ کشمیر کے عوام کو بھارت کی غلامی سے نجات دلانے کے لئے ہم (پاکستان کے سارے لوگ) ایک ہزار سال تک لڑیں گے“ تو جنابِ بھٹو مغربی پاکستان کی حد تک (خاص طور پر پنجاب اور سندھ میں) ہیرو بن گئے تھے۔
جنابِ الطاف حسین سے غلطی یہ ہُوئی کہ جب جون 2013ءمیں (آج سے ایک سال اور دس ماہ قبل) سکاٹ لینڈ یارڈ اور لندن میٹروپولیٹن پولیس نے لندن میں اُن کے گھر چھاپہ مارا تو اُنہیں خاموش رہنا چاہیئے تھا۔ وہ”تیل اور تیل کی دھار دیکھتے“ تو مناسب تھا لیکن اب تِیر کمان سے نکل چُکا ہے۔ جناب ِ الطاف حسین کو خدا نہ کرے! (جیسا کہ وہ کہہ چکے ہیں کہ مجھے ڈاکٹر عمران فاروق قتل کیس میں پھنسانے کی سازش کی جا رہی ہے) گرفتار کر لیا جائے تو کیا وہ ،عدالت میں اپنا جون 2013ءکا خطاب دُہرائیں گے؟ یا ِ اِس مقدمے کو عام فوجداری مقدمے کی طرح لڑیں گے؟ جناب حیدر عباس رضوی نے بڑی متانت سے کہا کہ ”ایم کیو ایم کو یقین ہے کہ برطانوی عدالتیں انصاف کے تقاضوں کو پورا کرتے ہُوئے ہی کسی نتیجے پر پہنچیں گی“۔
جناب الطاف حسین کو پاکستان میں ایم کیو ایم کی قیادت پر اعتماد کرنا چاہیے۔ ڈاکٹر عمران فاروق کا قتل لندن میں ہُوا ہے۔ فیصلہ لندن کی عدالت/عدالتوں کو کرنا ہے۔ اگر حکومت ِ پاکستان اور حکومت سے باہر اُن کا کوئی مخالف اُن کے بارے میں منفی سوچ رکھتا بھی ہے تو وہ برطانوی عدالت/عدالتوں پر اثر انداز نہیں ہو سکتا۔ برطانیہ میں صدر جنرل ضیاالحق جیسا کوئی چیف مارشل لاءایڈمنسٹریٹر ہوتا تو اور بات تھی۔ جناب الطاف حسین کو میرامشورہ ہے کہ اگر اُنہیں ڈاکٹر عمران فاروق کیس میں ملوث کر بھی لیا جائے تو وہ جنابِ بھٹو کا سا انداز اختیار نہ کریں۔ ”بھٹو نہ بنیں!“۔