شہاب الدین غوری اور ہمارے حکمران!
مقبوضہ کشمیر میں آزادی کے چیمپئن سید علی گیلانی نئی دہلی سے سری نگر پہنچے تو ہزاروں لوگوں نے ان کا استقبال کیا پھر ان لوگوں نے 4 سال بعد بھارتی جیل سے رہا ہونے والے حریت رہنما جناب مسرت عالم کی قیادت میں ریلی نکالی ’’کشمیر بنے گا پاکستان‘‘ ’’پاکستان زندہ باد‘‘ اور بھارت مردہ باد کے نعرے لگائے اور پاکستان کا پرچم بھی لہرا دیا۔ مقبوضہ کشمیر کے کٹھ پتی وزیر اعلیٰ مفتی محمد سعید کی حکومت نے سید علی گیلانی، جناب مسرت عالم کے خلاف مقدمہ درج کر لیا۔ بھارتی فوج نے مظاہرین پر تشدد بھی کیا جس کی پوری دنیا میں مذمت کی جا رہی ہے۔
کشمیری وزیر اعظم کے لئے مشکلات:
مقبوضہ کشمیر میں بھارت کے خلاف آزادی کی تحریک کئی سالوں سے چل رہی ہے۔ پاکستان میں قائم ہونے والی فوجی آمروں اور جمہوری حکمرانوں کی حکومت، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرار دادوں کے مطابق کشمیریوں کو اپنے حق خودارادیت کے ذریعے اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا موقع نہیں دلوا سکی۔ مقبوضہ کشمیر کے حریت پسند رہنما اور عوام، پاکستان سے بہت سی توقعات وابستہ کئے ہوئے ہیں اسی لئے وہ ’’پاکستان زندہ باد‘‘ اور ’’کشمیر بنے گا پاکستان‘‘ کے نعرے لگاتے اور پاکستان کا پرچم لہراتے رہتے ہیں۔
ہماری ریاست جموں و کشمیر کی آزاد حکومت ہے۔ وزارت امور کشمیر بھی اور سات سال سے وفاقی وزیر کی مراعات کے ساتھ مولانا فضل الرحمن کی چیئرمین شپ میں ’’ایک عدد کشمیر کمیٹی‘‘ بھی وزارت خارجہ بھی ہے اور اس کے ’’سرتاج‘‘ مشیر امور خارجہ جناب سرتاج عزیز ہیں۔ امور خارجہ میں وزیر اعظم کے معاون جناب طارق فاطمی بھی ہیں لیکن وزیر خارجہ کی کرسی خالی ہے۔ کشمیر کاز کے چیمپئن (ذوالفقار علی بھٹو) کے ’’روحانی فرزند‘‘ جناب آصف زرداری نے صدارت کا منصب سنبھالتے ہی ’’خود کلامی کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’کیوں نہ ہم 30 سال کے لئے مسئلہ کشمیر کو منجمد کر دیں؟‘‘ سری نگر کی ریلی میں حریت پسند کشمیریوں پر بھارتی فوج کے تشدد پر جناب زرداری فرماتے ہیں کہ ’’عالمی برادری کشمیریوں پر بھارتی مظالم کا نوٹس لے‘‘۔ اللہ خیر صلا وزارت خارجہ کی ترجمان محترمہ تسنیم اسلم نے روایتی بیان جاری کر دیا ہے کہ ’’کشمیریوں کی آواز کو جبر سے نہیں دبایا جا سکتا‘‘ وغیرہ وغیرہ۔ میرا ذاتی خیال ہے (خدا کرے کہ یہ غلط ہو)۔ سری نگر میں جناب سید علی گیلانی جناب مسرت عالم اور پاکستان کا پرچم اور ’’پاکستان زندہ باد‘‘ اور ’’بھارت مردہ باد‘‘ کے نعرے لگانے والوں نے تیسری بار منتخب ہونے والے کشمیری وزیر اعظم جناب ’’نواز شریف کے لئے مشکلات‘‘ پیدا کر دی ہیں کیونکہ موصوف اور ان کے ماتحت وزیر بھارت سے تجارت بڑھانے کے حق میں ہیں۔
شہاب الدین غوری اور ہمارے حکمران:
پاکستان بیلسٹک میزائل غوری بنانے میں کامیاب ہو گیا ہے۔ فوجی ترجمان کے مطابق ’’غوری میزائل روایتی اور جوہری ہتھیاروں کو لے جانے کی صلاحیت کا حامل ہے‘‘۔ جنرل زبیر محمود حیات کہتے ہیں کہ ’’میزائل غوری سے پاکستان کی دفاعی صلاحیت میں اضافہ ہو گا‘‘۔ صدر ممنون حسین اور وزیر اعظم نواز شریف نے غوری میزائل کا کامیاب تجربہ کرنے پر سائنسدانوں اور انجینئروں کی ٹیم اور پوری قوم کو مبارکباد دی ہے۔ فی الحقیقیت یہ مبارکباد کا موقع بھی ہے۔ میزائل غوری، غزنی کے مسلمان بادشاہ، شہاب الدین محمد غوری کے نام پر بنایا گیا ہے غوری جس نے 1193ء میں دہلی کے آخری ہندو راجا، پرتھوی راج چوہان کو شکست دی تھی اور پھر اس نے اپنے ایک غلام جرنیل قطب الدین ایبک کو دہلی کا حکمران (سلطان) بنا کر غزنی واپس چلا گیا تھا۔
قطب الدین ایبک اپنی زندگی میں ’’لکھ بخش‘‘ (یعنی لاکھوں روپے بخشنے والا) کہلاتا تھا۔ وہ لاہور میں دفن ہوا۔ نئی انار کلی میں ایک بغلی سڑک ’’ایبک روڈ‘‘ پر اس کا مزار ہے جہاں بہت کم لوگ فاتحہ پڑھنے جاتے ہیں۔ 1191ء میں پرتھوی راج چوہان نے شہاب الدین محمد غوری کو شکست دے دی تھی۔ دو سال تک سلطان شہاب الدین غوری نے خود آرام نہیں کیا اور نہ اپنے جرنیلوں کو کرنے دیا۔ دشمن سے انتقام لینے کے لئے جنگ کی تیاری کرتا اور اپنی فوج میں ’’جذبہ جہاد‘‘ پیدا کرتا رہا۔ تواریخ میں لکھا ہے کہ ’’شہاب الدین غوری کو سلطان الہند نائب رسول سلطان الہند حضرت غریب نواز معین الدین چشتی اجمیریؒ نے خواب میں دہلی پر دوبارہ حملے کرنے کی دعوت اور فتح کی بشارت بھی دی تھی۔
جولائی 2001ء میں صدر جنرل پرویز مشرف، بھارتی وزیر اعظم آنجہانی اٹل بہاری واجپائی کے ساتھ مذاکرات کے لئے دہلی اور آگرہ گئے۔ ان کی میڈیا ٹیم میں 60/50 صحافی تھے۔ میں بھی تھا۔ دہلی کے ایک فائیو سٹار ہوٹل میں پاکستانی ہائی کمیشن کی طرف سے میڈیا سنٹر بنایا گیا تھا۔ جو اکثر بھرا رہتا تھا۔ ایک دن میڈیا سنٹر میں اس دور کے وفاقی سیکرٹری اطلاعات و نشریات سید انور محمود اور پرنسپل انفارمیشن آفیسر چودھری اشفاق احمد گوندل اور موجودہ ڈائریکٹر جنرل ایکسٹرنل پبلسٹی ونگ سید عمران گردیزی سمیت 30/ 25 پاکستانی صحافی ’’ آگرہ سربراہی کانفرنس‘‘ مذاکرات پر تبادلہ خیالات کر رہے تھے کہ معروف صحافی شیخ مجیب الرحمن شامی نے اپنے چہرے پر مسکراہٹ بکھیرتے مجھ سے سوال کیا کہ اثر چوہان صاحب! آپ شہاب الدین غوری کے ساتھ ہیں یا پرتھوی راج چوہان کے ساتھ؟
میرے لئے شامی صاحب کا یہ ’’جملہ یا حملہ‘‘ غیر متوقع تھا تاہم میں نے عرض کیا کہ شامی صاحب! اگر آپ مجھ سے یہ سوال لاہور میں کرتے تو زیادہ مناسب تھا لیکن آپ نے دشمن کی سر زمین پر مجھ سے صفائی مانگی ہے لہذا مجھے اپنی یہ صفائی تو دینا پڑے گی۔ میں نے کہا کہ ’’شہاب الدین محمد غوری ایک مسلمان بادشاہ تھا اور پرتھوی راج چوہان ہندو راجا۔ 1191ء میں غوری کو شکست ہوئی تھی لیکن 1193ء میں شہاب الدین غوری اس لئے فاتح بن گیا کہ اس کے سر پر میرے جدی پشتی پیر و مرشد حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیریؒ کا دست شفقت تھا۔ میں خواجہ غریب نواز کا عقیدت مند ہوں۔ البتہ یہ ماننا پڑے گا کہ شہاب الدین غوری ایک باغیرت مسلمان تھا، اس نے اپنے غیر مسلم دشمن سے بدلہ لے لیا جبکہ، ہمارے حکمران پاکستان کو دولخت کروانے والے دشمن کا کچھ نہیں بگاڑ سکے۔ شامی صاحب مسکرا کر خاموش ہو گئے اور اشفاق احمد گوندل صاحب مجھے باہر لے گئے۔
مجاہد تحریک پاکستان ڈاکٹر مجید نظامی اپنی تقریروں اور تحریروں میں 16 دسمبر 1971ء کو یوم سقوط ڈھاکہ کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کرتے تھے کہ ’’جرنیل اور سیاستدان پاکستان کو دولخت کرانے کے ذمہ دار ہیں اور یہ انہی کا فرض ہے کہ وہ پاکستان اور بنگلہ دیش کو متحد کریں‘‘۔ جناب مجید نظامی نے 2013ء پاکستان اور بنگلہ دیش میں برادرانہ دوستی قائم کرنے کے لئے "Pakistan Bangladesh Brotherhood Society" قائم کی تھی۔ اس سے پہلے انہوں نے بنگلہ دیش کے کیمپوں میں نظر بند پاکستانیوں (بہاریوں) کی فلاح کے لئے "Fund" قائم کیا تھا۔
حیرت ہے کہ ہمارے بعض سیاسی رہنما اور مذہبی قائدین پاکستان کی معیشت پر بوجھ بننے والے ’’برادران اسلام‘‘ افغان مہاجرین کی ہمدردی میں لچھے دار تقریریں کرتے ہیں لیکن بنگلہ دیش میں پھنسے اصلی پاکستانیوں کو ان کے وطن (پاکستان) لانے کے لئے تحریک نہیں چلاتے۔ ہماری بہادر فوج نے تو ہر دور میں بیرونی دشمنوں کے عزائم کو خاک میں ملانے کے لئے اہم کردار ادا کیا ہے لیکن اصل فیصلہ تو سیاسی قیادت کو کرنا ہوتا ہے۔ میں تو پاک فوج کے سائنسدانوں اور انجینئروں کی طرف سے ’’غوری‘‘ کے نام سے بلیسٹک میزائل کے کامیاب تجربے کو بھی ہمارے حکمرانوں کے لئے ایک چیلنج ہی سمجھ رہا ہوں۔ انہیں نہ صرف حکمرانوں بلکہ تمام سیاستدانوں، مذہبی لیڈروں بلکہ پوری قوم کے سامنے غیرت کی علامت اور زندہ جاوید شہاب الدین غوری کو لا کھڑا کیا ہے۔