پاکستان میں انسانی حقوق کی خلاف وزریوں میں شدید اضافہ‘ دھرنا سیاست سے فرقہ وارانہ طاقتیں مستحکم ہو ئیں: رپورٹ
لاہور (لیڈی رپورٹر + بی بی سی) پاکستان کے انسانی حقوق کمشن نے اپنی سالانہ رپورٹ میں کہا ہے کہ پاکستان میں گزشتہ اپریل سے اب تک انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں شدید اضافہ دیکھنے میں آیا ہے اور ’دھرنوں کی سیاست‘ کی وجہ سے فرقہ وارانہ طاقتوں کو استحکام ملا ہے۔ 2014 کی رپورٹ میں کہاگیا کہ ملک میں مذہبی شدت پسندی میں اضافہ بلا روک ٹوک جاری ہے اور مذہبی اور مسلکی اقلیتوں کے لیے صورتحال ابتر ہوئی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گذشتہ برس پاکستان میں دہشت گردی کے 1206 واقعات ہوئے جن میں 26 خودکش حملے بھی شامل ہیں۔ ان واقعات میں 1723 افراد جاں بحق اور تین ہزار کے لگ بھگ زخمی ہوئے۔ سالانہ رپورٹ میں امن و امان کی صورت حال، خواتین، بچوں، قیدیوں کے حقوق، مذہبی، سیاسی اور اظہار کی آزادی، تعلیم، صحت اور ماحول اور چھت کی فراہمی سے متعلق شہریوں کے حقوق اور پناہ گزینوں کی صورت حال کا تفصیلی جائزہ پیش کیا گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق سنہ 2014 میں پاکستان میں فرقہ وارانہ دہشت گردی کے 144 واقعات ہوئے۔ سندھ میں ہندوؤں اور عیسائیوں کی 11 عبادت گاہوں کو نشانہ بنایا گیا۔ بلوچستان میں ذکری عقیدے سے تعلق رکھنے والوں پر دو حملوں میں چھ افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے اور ہدف بنا کر کیے جانے والے حملوں میں 11 احمدیوں کو ہلاک کیا گیا۔ کوٹ رادھا کشن میں عیسائی جوڑے کی ہلاکت کا بھی رپورٹ میں نمایاں طور پر تذکرہ کیا گیا ہے۔ انسانی حقوق کمشن آف پاکستان کی چیئرپرسن زہرہ یوسف نے گزشتہ روز سیکرٹری جنرل آئی اے رحمن، عاصمہ جہانگیر اور دوسرے رہنمائوں کے ہمراہ اپنے دفتر میں پریس کانفرنس کی اور رپورٹ پیش کی۔ رپورٹ کے مطابق گذشتہ برس تقریباً 597 خواتین اور بچیاں اجتماعی زیادتی کا شکار ہوئیں۔ 36 خواتین کو برہنہ کر کے ان کی تذلیل کی گئی۔ 828 کو جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ 923 خواتین اور 82 نابالغ بچیوں کو، جن میں سے 21 کا تعلق گلگت بلتستان سے تھا، غیرت کے نام پر قتل کر دیا گیا۔ گذشتہ برس پارلیمنٹ نے محض دس قوانین بنائے جن میں سے چند اہم وہ تھے جن کا تعلق سالمیت کے تحفظ اور دہشت گردی کے خاتمے سے تھا۔ ان میں تحفظِ پاکستان ایکٹ سرفہرست ہے۔ تاہم اقلیتوں کے حقوق کے حوالے سے کوئی قانون سازی نہیں ہو سکی۔ میڈیا کی آزادی کے حوالے سے بھی پاکستان کو خطرناک ملک شمار کیا گیا۔ 14 صحافی اور کارکن قتل کئے گئے اور قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی نے رپورٹنگ کی حدود اور نوعیت پر پابندیاں لگانے کا مطالبہ کیا۔ رپورٹ کے مطابق ملک بھر میں 70 لاکھ 93 ہزار مقدمات عدالتوں میں زیر سماعت پڑے ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گذشتہ برس صرف کراچی میں 134 سیاسی کارکنوں کا قتل ہوا، جبکہ اپنے فرائض کی ادائیگی کے دوران یہاں 160 پولیس اور رینجر اہلکار شہید ہوئے۔ فاٹا میں خیبر ایجنسی اور شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن کے باعث کم از کم 25 لاکھ افراد بے گھر ہوئے جبکہ سیالکوٹ کی سرحد پر بھارتی فوج کی فائرنگ سے درجنوں دیہات کے 40 ہزار افراد کو نقل مکانی کرنا پڑی۔ رپورٹ کے مطابق لاپتہ افراد کی تعداد میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔ وزیر اعظم کی برخاستگی اور ملک کے سیاسی نظام کو سدھارنے کے حواے سے پاکستان عوامی تحریک نے ’’انقلاب مارچ‘‘ کے عنوان سے ریلیاں نکالیں۔مئی 2013ء میں ہونے والے قومی انتخابات میں 64 نشستوں پر ہونے والی مبینہ دھاندلیوں کے خلاف 14 اگست کو ریلیاں شروع کی گئیں جو 16 دسمبر کو پشاور کے ایک سکول پر ہونے والی دہشت گردی کی کارروائی کے بعد ختم کر دی گئیں۔اگست تک پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک کے 1980 کارکن پنجاب کی جیلوں میں قید تھے۔20 جون کو ہزاروں افراد، جن میں زیادہ تعداد خواتین اور بچوں کی تھی، بلوچستان کے شہر پنجگور میں سڑکوں پر نکل آئے اور انہوں نے مسلسل پانچ روز سے نجی سکولوں کی بندش کے خلاف شدید احتجاج کیا۔ 92 خواتین اور 13 نابالغ لڑکیوں پر تیزاب پھینکا گیا جن میں سے سات جاں بحق ہوگئیں۔ خیبر پی کے میں خواتین کا پہلا اینٹی ٹیرر کمانڈوز سکواڈ قائم کیا گیا جنہیں مردوں کے ساتھ ہی تربیت دی گئی۔ حکومت نے خواتین کی شکایات کے ازالے کے لیے پولیس سٹیشنوں پر خواتین کی معاونت کے ڈیسک قائم کیے۔ جنوری 2014ء سے 30 ستمبر 2014ء تک کے دوران بچوں کے ساتھ جنسی درندگی کے 311 واقعات سامنے آئے۔ ان میں 214 لڑکیا ںاور 97 لڑکے تھے ان تمام بچوں کا تعلق راولپنڈی اور اسلام آباد سے تھا۔ پشاور میں آرمی پبلک سکول پر ہونے والی دہشت گردی کے نتیجے میں 150 شہادتیں ہوئیں جن میں زیادہ تر تعداد طلبہ کی تھی۔سال 2014ء کے دوران دنیا بھر میں پولیو کے جو 356 مریض سامنے آئے ہیں ان میں سے 86 فیصد مریض پاکستان میں سامنے آئے۔ پولیو ٹیموں جن میں ویکسی نیٹر، معاون کار اور حفاظت کار شامل تھے کے 45 ارکان قتل کر دئیے گئے۔ایک سال سے کم عمر میں وفات پا جانے والے بچوں کی تعداد 95 فی ہزار رہی جبکہ دوسرے ملکوں میں یہ تعداد 60 فی ہزار ہے۔سندھ میں تھر اور پنجاب میں چولستان کے صحرا سے لاکھوں کی تعداد میں لوگ قحط سالی کے باعث دوسرے علاقوں کو منتقل ہوئے۔سرحد پار سے بھارتی افواج کی فائرنگ کے باعث سیالکوٹ کے درجنوں دیہات سے تقریباً چالیس ہزار افراد کو اپناگھر بار چھوڑنا پڑا۔1971 سے بنگلہ دیش میں محصور لاکھوں پاکستانیوں کی بے وطنی کو ختم کرنے کے لیے کچھ نہیں کیا گیا۔ بلو چستان میں لاپتہ افراد کی تعداد میں کمی، لاپتہ لوگوں کی ہلاکتوں میں اضافہ ہو رہا ہے‘2014 ء کے دوران سندھ سے 11 سیاسی قیدی غائب ہوئے ‘ فرقہ وارانہ تشدد سے جاں بحق ہونے والوں کی تعداد 210 رہی ‘ملک میں 70لاکھ93ہزار مقدمات عدالتوں میں زیر سماعت پڑ ے ہیں۔ 2014ء کے دوران سندھ پولیس نے خواتین کے اغواء کے 1261 مقدمات درج کئے۔ ان خواتین کو زبردستی شادی کے لیے اغوا کیا گیا تھا۔ پاکستان میں تیزاب پھینکنے کے 114 مقدمات درج ہوئے۔ 159 افراد اس بھیانک جرم کا نشانہ بنے۔پو لیو کے حوالے سے رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پولیو ٹیموں کے 45 ارکان، جن میں ویکسی نیٹر اور سہولت کار شامل ہیں، جاں بحق ہوئے۔کراچی میں فرائض کی ادائیگی کے دوران پولیس اور رینجرز کے 160 اہلکار فائرنگ کے دوران جاں بحق ہوئے۔