اب ”کشمیر بنے گا پاکستان“ کی منزل آسان ہو سکتی ہے
کشمیریوں پر بھارتی مظالم کا نیا سلسلہ اور پاکستان کا کشمیریوں کی حمایت کا اعادہ
مقبوضہ کشمیر میں ریلی کے دوران پاکستانی پرچم لہرانے اور پاکستان کے حق میں نعرے بازی کرنے پر حریت رہنماءمسرت عالم اور دوسرے کشمیری لیڈران کو گرفتار اور بزرگ کشمیری رہنماءسیدعلی گیلانی کو نظربند کرنے کیخلاف گزشتہ روز سرینگر میں میرواعظ عمر فاروق کی قیادت میں احتجاجی ریلی نکالی گئی تو بھارتی فوج نے مظالم کی انتہاءکرتے ہوئے اس ریلی پر لاٹھی چارج اور پھر فائرنگ شروع کر دی جس سے 14 کشمیری زخمی ہو گئے۔ آل پارٹیز حریت کانفرنس آزاد کشمیر نے متعصب بھارتی سیکورٹی فورسز کی پیداکردہ اس کشیدہ صورتحال پر غور کیلئے 28 اپریل کو اسلام آباد میں گول میز کانفرنس طلب کرلی ہے۔ گزشتہ روز کشمیری رہنماءیٰسین ملک نے بھارتی مظالم کیخلاف بھوک ہڑتال شروع کی تو انہیں بھی گرفتار کرلیا گیا۔ کل جماعتی حریت کانفرنس کے چیئرمین میرواعظ عمرفاروق نے جموں و کشمیر کی موجودہ صورتحال کو مارشل لاءسے تعبیر کیا ہے اور کہا ہے کہ کالے قوانین کی آڑ میں وردی پوش اہلکار معصوم نوجوانوں کا خون بہانے میں جری بن گئے ہیں جنہیں جوابدہی کا کوئی ڈرخوف نہیں۔ انہوں نے مقبوضہ کشمیر میں ریاستی دہشت گردی ختم کرنے کا تقاضا کیا اور کہا کہ پاکستان کا پرچم لہرانا کشمیری عوام کے جذبات ہیں۔ مودی حکومت کا ایجنڈا کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ وہ طاقت کے زور پر کشمیریوں کی آواز دبانا چاہتی ہے۔ دفتر خارجہ پاکستان نے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی سیکورٹی فورسز کی طرف سے نہتے کشمیریوں پر طاقت کے وحشیانہ استعمال کی مذمت کرتے ہوئے باور کرایا ہے کہ کشمیریوں کی حق خودارادیت کیلئے جدوجہد قانونی ہے اور سلامتی کونسل کی قراردادیں بھی اس پر گواہ ہیں۔ ترجمان دفتر خارجہ تسنیم اسلم نے اپنی ہفتہ وار بریفنگ میں کہا کہ پاکستان تواتر کے ساتھ کشمیریوں کی حق خودارادیت کی جدوجہد کی سیاسی‘ سفارتی و اخلاقی حمایت کرتا ہے۔
دو روز قبل مقبوضہ کشمیر کے دارالحکومت سرینگر میں بھارت مخالف ریلی میں ”تیری جان‘ میری جان‘ پاکستان“ اور ”پاکستان کا کیا پیغام‘ کشمیر بنے گا پاکستان“ کے فلک شگاف نعرے لگائے گئے اور پاکستان کا جھنڈا لہرایا گیا تو مودی حکومت نے برافروختہ ہو کر کشمیریوں پر مظالم کا نیا سلسلہ شروع کر دیا ہے جس کیخلاف کشمیری عوام بھی سراپا احتجاج ہو کر سڑکوں پر آگئے ہیں۔ گزشتہ روز سرینگر میں احتجاجی مظاہرے کے دوران ہزاروں افراد نے بھارتی پرچم جلائے اور پولیس پر پتھراﺅ کیا جبکہ نئی دہلی کی جواہر لال یونیورسٹی میں طلبہ کی ایک بڑی تعداد نے مقبوضہ کشمیر کے علاقے ترال میں بھارتی فوجیوں کے ہاتھوں دو شہریوں کے قتل کیخلاف احتجاج کرتے ہوئے شمعیں روشن کیں۔ دختران ملت کی سربراہ آسیہ اندرابی نے پاکستانی پرچم لہرانے اور بھارت مخالف نعرے لگانے پر سیدعلی گیلانی‘ مسرت عالم اور دوسرے کشمیری لیڈران کیخلاف مقدمات کے اندراج کو بھارت کی بوکھلاہٹ قرار دیا ہے جبکہ میرواعظ عمرفاروق نے عالمی برادری سے ان بھارتی مظالم کا نوٹس لینے کی اپیل کی ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق بھارتی فوج کی جارحیت‘ نوجوانوں کی شہادت اور کشمیری رہنماﺅں کی گرفتاریوں کیخلاف مقبوضہ کشمیر میں ہفتے کے روز مکمل شٹرڈاﺅن ہڑتال کی گئی اور تمام کاروباری مراکز‘ مارکٹیں اور سکول بند رہے جبکہ ٹریفک سڑکوں سے غائب رہی۔ بھارتی فوج کی فائرنگ سے گزشتہ دو روز میں شہید ہونیوالوں کی تعداد تین ہو چکی ہے جبکہ 25 افراد زخمی ہوئے ہیں۔ ان بھارتی مظالم کیخلاف احتجاج کا سلسلہ مقبوضہ کشمیر سے نکل کر پورے بھارت میں پھیل رہا ہے۔ حریت رہنماءمسرت عالم بھٹ کو سات دن کے ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کر دیا گیا ہے جس پر کشمیریوں کے جذبات مزید مشتعل ہوئے ہیں اور انہوں نے مقبوضہ وادی میں گھیراﺅ جلاﺅ کا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔ کشمیر میڈیا سروس کے مطابق پولیس فائرنگ سے زخمی ہونیوالوں میں سے متعدد کی حالت تشویشناک ہے۔
یقیناً ہر بھارتی دور حکومت میں کشمیریوں کا عرصہ حیات تنگ رہا ہے جن کی حق خودارادیت کی آواز دبانے کیلئے لاٹھی‘ گولی اور خواتین کی عزتوں کی پامالی سمیت ریاستی دہشت گردی کا ہر ہتھکنڈہ آزمایا جاتا رہا مگر انکے پائے استقلال میں کوئی ہلکی سی بھی لغزش پیدا نہیں ہو سکی۔ کشمیری عوام اپنی آزادی کے مقدس کاز کی خاطر اب تک پانچ لاکھ کے قریب جانوں کی قربانیاں دے چکے ہیں جبکہ مقبوضہ کشمیر میں دو سال قبل ایمنسٹی انٹرنیشنل کے سروے کے دوران اجتماعی قبریں برآمد ہونے سے انسانی حقوق کی پامالی کے حوالے سے پوری دنیا میں شور اٹھا اور ایمنسٹی کی رپورٹ پر یورپی یونین نے بھارت کے ساتھ تجارت معطل کردی۔ اقوام متحدہ کی ہیومن رائٹس کمیٹی اور پھر سلامتی کونسل میں بھی بھارتی مظالم کیخلاف صدائے احتجاج بلند ہوئی اور کشمیریوں کو حق خودارادیت دلوانے کا تقاضا کیا گیا جبکہ گزشتہ سال اوورسیز کشمیریوں کی تنظیم کے زیر اہتمام لندن‘ پیرس اور دنیا کے دیگر ممالک میں احتجاجی ریلیاں بھی نکالی جا چکی ہیں جن میں ان ممالک کے ارکان پارلیمنٹ بھی شریک ہوتے رہے۔ اس تناظر میں حقوق انسانی کی عالمی تنظیموں اور عالمی قیادتوں کو کشمیری عوام پر جاری مظالم سے بھی مکمل آگاہی ہے اور انکے حق خودارادیت کا بھی ادراک ہے جبکہ بھارتی ہٹ دھرمی ایسی ہے کہ وہ مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے نہ چین اور امریکہ کا ثالثی کا کردار قبول کرنے پر آمادہ ہے اور نہ اقوام متحدہ اور یورپی پارلیمنٹ کی قراردادوں کو خاطر میں لایا جارہا ہے۔ پاکستان کے ساتھ کشمیر کے اپنے ساختہ تنازعہ پر اس نے شروع دن سے ہی کشیدگی کی فضا قائم کر رکھی ہے جسے اٹوٹ انگ قرار دیتے ہوئے وہ مذاکرات کی میز پر کشمیر کا لفظ سنتے ہی بدک جاتا ہے اور رعونت کے ساتھ مذاکرات کی میز الٹا کر پاکستان کو کشمیر بھلا دینے کے مشورے دیتا نظر آتا ہے۔ گزشتہ سال کے بھارتی انتخابات میں بی جے پی نے تو اپنے انتخابی منشور کی بنیاد ہی پاکستان دشمنی پر رکھی جسے عملی جامہ پناتے ہوئے دوستی بس‘ سمجھوتہ ایکسپریس‘ پاکستانی ہائی کمیشن اور بھارت گئے ہوئے پاکستانی تجارتی اور ثقافتی وفود اور کھلاڑیوں پر انتہاءپسند ہندوﺅں کے حملوں کا سلسلہ شروع کردیا گیا۔ اسی فضا میں بی جے پی نے انتخابات میں کامیابی حاصل کی اور اسکے امیدوار نریندر مودی نے اقتدار میں آتے ہی نہ صرف پاکستان کے ساتھ سرحدی کشیدگی بڑھائی بلکہ مقبوضہ کشمیر میں کشمیریوں کے حقوق سلب کرنے کے اقدامات کا بھی آغاز کر دیا۔ اس تناظر میں بھارتی آئین میں ترمیم کرکے مقبوضہ کشمیر میں مسلمان غالب اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرنے کی سازش کے تحت متروکہ املاک پر ہندو پنڈتوں کو قابض کرنے کی کارروائیاں شروع کی گئیں جبکہ بھارت میں مسلمان اور عیسائی اقلیتوں کو جبراً ہندو بنانے کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا جس کیخلاف انسانی حقوق کے عالمی اداروں نے بھی باضابطہ احتجاج کیا۔ مگر بھارتی ہٹ دھرمی ہے کہ بڑھتی ہی جارہی ہے جسے پاکستان کے ہائی کمیشن میں کشمیری لیڈران کا آنا بھی گوارا نہیں ہوتا اور وہ کشمیریوں پر مظالم کا نیا سلسلہ شروع کر دیتا ہے۔ گزشتہ سال پاکستان بھارت خارجہ سیکرٹریوں کے اسلام آباد میں شیڈول مذاکرات بھی پاکستان ہائی کمشنر کے کشمیری لیڈران سے رابطے کے بودے الزام پر منسوخ کئے گئے جس کے بعد بھارتی فوجوں نے کنٹرول لائن پر یکطرفہ فائرنگ اور گولہ باری کا سلسلہ بڑھایا تو اس پر بھارت کے یوم جمہوریہ پر بھارت آئے امریکی صدر اوباما کو بھی تشویش لاحق ہوئی جنہوں نے اگرچہ بھارت کو اپنا علاقائی اتحادی قرار دیکر اسکے ساتھ دفاعی تعاون کے متعدد معاہدے سائن کئے مگر واپس جا کر انہوں نے اپنے پالیسی بیان میں مودی حکومت کو یہی مشورہ دیا کہ وہ ہندو انتہاءپسندی پر قابو پائے کیونکہ اس سے خطے میں کشیدگی بڑھنے کا خدشہ ہے۔
کشمیری عوام کو جو گزشتہ 60 سال سے زائد عرصے سے استصواب کے حق سے محروم رکھے جا رہے ہیں‘ اپنے حق خودارادیت کیلئے کسی بھی سطح پر اور کسی بھی انداز میں آواز اٹھانے کا مکمل حق حاصل ہے جسے بروئے کار لا کر وہ دنیا کو اپنی مظلومیت پر بھی قائل کر چکے ہیں اور اصلی بھارتی مکروہ چہرہ بھی دکھا چکے ہیں۔ اگرچہ انہیں پاکستان کے سابق اور موجودہ حکمرانوں کی جانب سے کبھی حوصلہ افزاءجواب نہیں ملا اور ہماری بھارت نواز حکومتی پالیسیوں سے کشمیریوں کو پاکستان کے ساتھ الحاق کے معاملہ میں مایوسیوں کا ہی سامنا کرنا پڑا ہے‘ اسکے باوجود انہوں نے اپنی آزادی کی جدوجہد کو پاکستان کے ساتھ الحاق کی جدوجہد کے ساتھ نتھی کر رکھا ہے جس کا پس منظر یقیناً ان پر ڈھائے جانیوالے بھارتی مظالم ہیں۔ تقسیم ہند کے ایجنڈا اور کشمیریوں کے فطری جذبے کے تحت کشمیر کا پاکستان کے ساتھ ہی الحاق ہونا ہے اور اسی تناظر میں قائداعظم نے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دیا تھا جبکہ بھارتی حکمرانوں اور لیڈران کو بھی اس کا مکمل ادراک ہے کہ استصواب کی صورت میں کشمیریوں نے پاکستان کے حق میں ہی ووٹ دینا ہے اس لئے وہ جبر کا ہر ہتھکنڈہ استعمال کرکے انکی آواز دبانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس وقت کشمیریوں پر بھارتی مظالم کا جو سلسلہ شروع ہے وہ کشمیریوں کی جدوجہد کیلئے ٹرننگ پوائنٹ ثابت ہو سکتا ہے۔ اگرچہ دفتر خارجہ نے بھارتی مظالم کی مذمت کرتے ہوئے کشمیریوں کی سیاسی‘ سفارتی اور اخلاقی حمایت کا اعلان کیا ہے تاہم وقت کا تقاضا ہے کہ پارلیمنٹ کی کشمیر کمیٹی کو خواب خرگوش سے جگاکر اسے دنیا میں کشمیر کاز اجاگر کرنے کیلئے متحرک کیا جائے اور ہر عالمی فورم پر بھارتی مظالم کیخلاف آواز اٹھائی جائے۔ اس سے جہاں کشمیریوں کے کاز کو تقویت حاصل ہو گی‘ وہیں ہم پر ان کا اعتماد بھی بحال ہو گا اور ”کشمیر بنے گا پاکستان“ کی منزل آسان ہو جائیگی۔