اتوار ‘ 29 جمادی الثانی 1436ھ ‘ 19 اپریل 2015ئ
”پانی سمندر میں پھینک دیں پنجاب کو نہ دیں“ چشمہ جہلم کینال سے پنجاب کو 10 ہزار کیوسک پانی کی فراہمی پر ممبر سندھ ارسا کا اختلافی نوٹ۔
یہ تو لگتا ہے دور جدید کے یزید کا فرمان ہے۔ جو ارسا سندھ کے ممبر کے قلم سے جاری ہو رہا ہے۔ پاکستان کے 4 صوبے ایک دوسرے سے یوں پیوست ہیں جیسے ہاتھ کی انگلیاں کوئی انہیں جدا نہیں کر سکتا مگر یہ ارسا سندھ کے ممبر کی تو بات ہی نرالی ہے۔ گزشتہ ماہ 30 لاکھ کیوسک پانی سمندر میں جا کر ضائع ہو گیا۔ اس پر کسی نے ایک لفظ منہ سے نہیں نکالا۔ مگر جب پنجاب کو دریائے سندھ کے اضافی پانی سے صرف 10 ہزار کیوسک پانی کاشتکاری کے لیے دیا جا رہا ہے تو اس ممبر کا کلیجہ شق ہو گیا۔ اب کوئی ان سے پوچھے کہ جناب دریائے سندھ جو اس وقت لبالب بھرا ہوا ہے اس کا پانی آپ نے سندھ میں سٹور کرنے کا کوئی بندوبست کیا ہوتا۔ ڈیم بنائے ہوتے تو یہ اضافی پانی وہاں سٹور کرتے پھر پنجاب کو دینے سے انکار ہوتا تو وجہ سمجھ آتی۔ مگر سندھ کا اپنا یہ حال ہے کہ تھر میں بھوک اور پیاس ڈیرے ڈالے ہوئے ہے۔ آپ اگر واقعی سندھ کے ہمدرد ہوتے تو کوئی نہر نکلواتے نہر زبیدہ کی طرح جو ”دریائے سندھ کا یہ پانی تھر تک پہنچاتی اور تھر کو سیراب کرتی۔ مگر ایسا تو آپ سے ہوا نہیں البتہ اگر پانی پنجاب کے کام لانے کا منصوبہ بنا تو آپ کو اس پر بھی اعتراض ہونے لگا ہے۔ آپ تو حقیقت میں برادران یوسف کی زندہ تصویر بن گئے۔ سمندر سے اگر واقعی آپ کو اتنا پیار ہے تو کیوں نہ آپ کو بھی اٹھا کر اس پانی کی تحویل میں دے دیا جائے تاکہ آپ اطمینان سے باقی زندگی وہاں بسر کریں اور پاکستان آپ کی شعلہ بیانی سے محفوظ رہے۔ دریا کا پانی تو عطیہ خداوندی ہے جو کسی شخص کی میراث یا ملکیت نہیں ہوتا کہ وہ اس پر حق جتائے یہ دھرتی کو سیراب کرتا ہے۔ فصلیں اگاتا ہے اناج پیدا کرتا ہے جو لوگوں کا پیٹ بھرنے تن ڈھانپنے کے کام آتا ہے۔ اگر پنجاب کی دھرتی اس پانی سے شاداب ہے تو اس کا اثر پورے پاکستان پر پڑتا ہے جو غذائی خودکفالت حاصل کرتا ہے تو اس پانی کی بندش کرنا کہاں کی دانش مندی ہے۔ ضائع ہونے سے تو لاکھ بہتر ہے کہ یہ پانی کام میں لایا جائے۔
٭....٭....٭....٭
شیخ رشید کی ایڈمنسٹریٹر متروکہ وقف املاک بورڈ کی عدالت میں پیشی، لال حویلی سے متصل جائیداد کا باقاعدہ کرایہ دار بننے کی درخواست۔
ملکیت کے دعویٰ سے کرایہ داری کی درخواست تک کا یہ سفر بھی شیخ رشید کی سیاسی زندگی کی طرح لگتا ہے۔ کہاں مسلم لیگ ن میں بیٹھے ہوئے اسے لال حویلی کی طرح اپنی جدی پشتی جائیداد سمجھنے والے شیخ صاحب کہاں اب اپنی نجی مسلم لیگ کے تنہا وارث، ممبر اور کارکن۔ ہائے یہ دور غریباں کا سفر اور تنہائی کا عالم۔ کبھی پوری لال حویلی شیخ صاحب کے قدموں میں بچھی ہوتی تھی اور شیخ جی اس کے مہاراجہ بنے پھرتے تھے۔ آج شیخ رشید وہاں رہنے کا حق کرایہ دار بن کر مانگتے نظر آ رہے ہیں۔ ہے ناں عجب بات۔
متروکہ وقف املاک کے چیئرمین نے بھی گزشتہ روز انکشاف کیا کہ شیخ صاحب سے لال حویلی کی جائیداد کے استعمال پر لاکھوں روپے ماہانہ کرایہ بھی وصول کرنا باقی ہے۔ گویا یہاں بھی شیخ صاحب غالب کی طرح مفت کی پینے والی بات پر عمل کر رہے تھے۔
غالب بے چارے کو تو اس مفت کی پینے کی عادت نے جیل پہنچا دیا تھا۔ اب دیکھنا ہے شیخ صاحب کے ساتھ کیا ہوتا ہے۔ وہ تمام کرایہ بمعہ سود ادا کرتے ہیں یا جیل جانا پسند کرتے ہیں۔ جسے وہ اپنا سسرال کہہ سکتے ہیں اور انہیں اپنے جیل جانے پر فخر ہوتا ہے حالانکہ قدر کھو دیتا ہے۔ ہر روز کا آنا جانا۔ اور پھر وہ بھی سسرال میں۔ یہ تو بہت ہی بے قدری کرواتا ہے۔
اس وقت عمران خان ویسے ہی مصروف ہیں کراچی الیکشن میں اور اپنے ممبران اسمبلی کو بچانے میں۔ ان کے پاس شاید اتنا وقت نہیں ہو گا کہ وہ اس مشکل مرحلے میں اپنے دیرینہ دوست کی کچھ مدد کریں جو ہر روز کنٹینر پر اپنے دوست عمران کی تقریری مدد کے لئے پہنچ جاتا تھا۔ افسوس اب وہ دھرنا رہا نہ وہ کنٹینر۔ ورنہ شیخ صاحب کے مسئلہ کرایہ داری پر وہاں خوب بیان بازی ہوتی اور چہل پہل رہتی۔ اس وقت لگتا ہے شیخ صاحب کے ستارے ذرا ڈانوں ڈول ہیں۔ اسمبلی میں انہیں بولنے کی اجازت نہیں مل رہی۔ دیکھنا ہے اب اس درخواست کا کیا بنتا ہے۔
٭....٭....٭....٭
ایران کو فروخت کئے گئے میزائلوں سے اسرائیل کو کوئی خطرہ نہیں۔روسی صدر
تو کیا یہ میزائل روس نے ایران کو چاند ماری کی مشق کرنے کے لیے فروخت کیے ہیں یا پڑوسی ممالک کو نشانہ بنانے کے لیے۔ خوش قسمتی سے اس وقت ایران کے پڑوس میں کوئی اس کا دشمن نہیں ہے۔ البتہ خود روس، ایران کا قریبی ایسا ملک ہے جو غیر مسلم ہے۔ اب کہیں تاجکستان یا ازبکستان کے ساتھ کسی مسئلے پر روس کی ان بن ہو گئی تو کہیں ایران اپنے بردار اسلامی ہمسایہ ممالک کی مدد کو آ گیا تو کیا گارنٹی ہے کہ یہ میزائل خود روس کے خلاف استعمال نہیں ہوں گے۔ روس کو فکر اس کی کرنی چاہیے۔
بہرحال اصل بات جو بھی ہو۔ اسرائیلی حکومت اب تسلی سے سکون کی نیند سوئے کیونکہ روس نے گارنٹی دے دی ہے کہ اسرائیل کو ان میزائلوں سے کوئی خطرہ نہیں تو یروشلم میں امید ہے گھی کے چراغ جلائے جائیں گے۔ کیونکہ انہیں ڈر تھا کہ کہیں ان میزائلوں کا رخ ان کی طرف نہ ہو۔ انقلاب ایران کے دور سے ہم ایک نعرہ سنتے آئے تھے کہ ”بیت المقدس کا راستہ کربلا سے ہو کر گزرتا ہے“ کربلا یعنی عراق تو ایران کے ہاتھوں فتح ہو چکا۔ مگر اس کے ساتھ ہی یہ راستہ بھی کربلا کے صحرا میںکہیں گم ہو گیا ہے۔ عراق کے بعد اب شام میں ایک نئی کربلا کی داستان رقم ہو رہی ہے اور شاید یمن میں بھی یہی داستان دہرائی جائے۔ اس پورے منظرنامے میں ہمیں تو کہیں سے بھی اسرائیل کو کوئی خطرہ نظر نہیں آتا۔ اگر خطرہ ہے بھی تو اسرائیل کو نہیں عرب اور عجم کی ان ریاستوں میں ضرور نظر آ رہا ہے۔ جہاں مسلمان ہی مسلمان کا وجود مٹانے کے درپے ہیں۔ اور انہیں کسی بیرونی میزائل کی ضرورت نہیں۔