ایران، سعودی عرب مخاصمت اور پاکستان
تمام تر خرابیوں کے باوجود پاکستان آج بھی عالم اسلام کا مضبوط قلعہ ہے اور دنیا میں پہلی اسلامی قوت اور چھٹی بڑی پیشہ وارانہ امور کی حامل فوج رکھنے کا اعزاز اس کو حاصل ہے۔ مگر بدقسمتی سے مشرق وسطیٰ میں ایران اور سعودی عرب کی چپقلش خصوصاً یمن میں دونوں ممالک کا ایک دوسرے کے ساتھ پراکسی جنگ میں مبتلا ہونے سے پاکستان ایک امتحانی صورت سے گزر رہا ہے۔ پاکستان کی رائے عامہ منقسم دکھائی دے رہی ہے۔ ایرانی مسلک سے ہم آہنگ سیاستدانوں، دانشوروں اور ریٹائرڈ عسکری ماہرین کا خیال ہے کہ پاکستان کو یمن کے معاملے میں غیر جانبدارانہ کردار ادا کرنا چاہئے مگر جونہی پارلیمنٹ میں پاکستان غیر جانبدارانہ ثالثی کی آواز بلند ہوئی تو سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے وزراءکی جانب سے شدید ترین غیر سفارتی رد عمل سامنے آیا، جسکے جواب میں ہمارے وزیر داخلہ چودھری نثار صاحب نے بھی جواب آں غزل بلند کرنے میں دیر نہ لگائی۔ سعودی عرب اور مشرق وسطی کے تمام ممالک جن کی تعداد اکیس کے قریب ہے انکی متحد افواج اور فضائیہ یمن کے خلاف کارروائی کر رہی ہے وہاں بقول ان کے موقف کے حوثی باغیوں نے منصور ہادی کی حکومت کا زبردستی تختہ الٹا ہے اور سعودی عرب اور اسکے اتحادی باغیوں کی سرکوبی کے لئے یمن کی آئینی اور قانونی حکومت کا ساتھ دے رہے ہیں لہٰذا پاکستان کو کھل کر عرب ممالک کا ساتھ دینا چاہئے اور فوراً اپنے زمینی دستوں کے علاوہ، فضائیہ اور بحری جہازوں کو سعودی عرب اور گلف کونسل کے ممالک کی فوجیوں کی مدد کے لئے روانہ کرے۔ جبکہ ایران باغیوں کی حمایت اور انہیں اسلحہ فراہم کرنے سے باز رہے۔ جبکہ ایران کی حکومت کا موقف ہے۔ یہ یمن کی خانہ جنگی فریقین کا اندرونی معاملہ ہے لہٰذا انکے درمیان مسلم ممالک کو ثالثی کا کردار ادا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ چونکہ منصور ہادی کو عبداللہ صالح کی حکومت کے ختم ہونے پر عارضی طور پر نگران صدر بنایا گیا تھا اور اسکا کام صرف یہ تھا کہ متحارب فریقین کے باہمی اختلافات ختم کرا کے وہاں پر غیر جانبدارانہ انتخابات کے ذریعے اقتدار حقیقی عوامی نمائندوں کے سپرد کرتا مگر وہ سعودی عرب اور امریکہ کے مفادات کے تحفظ کیلئے اپنے اقتدار کو طول دیتا گیا جس پر وہاں سیاسی مخالفین نے اسکے خلاف بغاوت کی ہے۔ اگرچہ پاکستان بڑی مشکل صورتحال میں گرفتار ہے۔ اور وہ کسی بھی صورت میں اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ بیک وقت سعودی عرب اورایران سے اپنے تعلقات کو خراب کرے کیونکہ پاکستان میں اثنائے عشری مسلک کے مسلمانوںکی اکثریت کے دل سعودی عرب کی بجائے ایران کی حکومت کےساتھ دھڑکتے ہیں کیونکہ ان کیلئے ولایت فقیہ کے منصب پر امامت پر فائز شخصیت ایران میں موجود ہے۔ مگر دوسرے طبقہ فکر کے مطابق سعودی عرب نے ہمیشہ ہر دکھ اور سکھ میں پاکستان کا ساتھ دیا ہے۔ سعودی عرب اور امارات کے ممالک میں تیس لاکھ پاکستانی روزگار کے سلسلے میں مقیم ہیں اور تقریباً 10 ارب ڈالرز کی بیرونی ترسیلات صرف خلیجی ممالک کے پاکستانی پاکستان روانہ کرتے ہیں۔ جہاں اس زرمبادلہ سے پاکستان کی معیشت کو استحکام ملتا ہے۔ وہاں تقریباً 3 کروڑ سے زائد پاکستانیوں کی سانس کی ڈوری اسکے ساتھ بندھی ہوئی ہے۔ چنانچہ اب ان معروضی حالات کا جائزہ لینے کے بعد شہباز شریف اعلیٰ ترین وفد کے ساتھ فوراً سعودی عرب گئے اور پاکستان کی پوزیشن سعودی حکمرانوں کے سامنے واضح کی اور پارلیمنٹ کی قرار داد میں غیر جانبداری کے الفاظ اور ثالثی کرنے کی بات کو واپس لیتے ہوئے دوٹوک الفاظ میں سعودی عرب کو اپنی حمایت کا یقین دلایا اور جمعرات کی سہ پہر وزیراعظم ہاﺅس اسلام آباد میں ہونے والے اعلیٰ سطح اجلاس میں یمن کی صورتحال پر غور کرنے کے بعد سلامتی کونسل کی قرار داد کی روشنی میں سعودی عرب اور خلیج تعاون کونسل کی حمایت میں اپنا کردار ادا کرنے کا عندیہ دیا ہے۔
پاکستان کے سعودی عرب کے ساتھ تعلقات ہمیشہ ہی برادرانہ رہے ہیں۔ عالمی سطح پر دونوں ممالک نے ہمیشہ مفاہمت اور دوستی کا رویہ اپنایا اور ہمیشہ عالمی فورمز پر پاکستان کے کشمیر کے بارے میں موقف کی مکمل تائید کی ۔ شاہ فیصل مرحوم نے کشمیر کے مسئلہ پر ہمیشہ زور دار موقف اپنایا 1962ءمیں جب وہ مسند اقتدار ہوئے تو انہوں نے پہلے ہی پالیسی بیان میں کشمیریوں کے حق خود ارادیت کی بھر پور وکالت کی۔ سعودی اخبارات نے جہاں کشمیر میں کشمیری مسلمانوں کی امداد کرنے کے لئے تمام مسلمان اقوام کو مدد کی اپیل کی 1965ءاور 1971 کی جنگوں کے دوران پاکستان کو سعودی عرب کی مکمل سیاسی، سفارتی، فوجی اور اقتصادی حمایت حاصل رہی اور سعودی عرب نے ہندوستان کی پاکستان کے خلاف جارحیت کو ہمیشہ اپنے خلاف حملہ تصور کیا اور ہمیشہ سخت ترین الفاظ میں اسکی مذمت کی۔ پاکستان اور سعودی عرب میں باہمی تعلقات میں گرمجوشی کی بڑی وجہ ذوالفقار علی بھٹوکی 1974ءمیں اسلامی ممالک کے اتحاد کیلئے اسلامی سربراہی کانفرنس کا انعقاد ہے۔ شاہ فیصل اسلامی یک جہتی اور اتحاد امہ کیلئے ذوالفقار علی بھٹو کی لگن سے بے حد متاثر ہوئے۔ اور انہوں نے پاکستان کی سالمیت اور آزادی کے تحفظ کو امت مسلمہ کے تناظر میں پہلے سے کہیں بڑھ کر محسوس کیا۔ ایٹمی دھماکوں کے بعد پاکستان پر عائد اقتصادی پابندیوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے سعودی عرب نے پاکستان کو ادھار تیل کی فراہمی کو ممکن بنایا جو اس مشکل گھڑی میں پاکستان کیلئے نعمت غیر مترقبہ سے کم نہ تھا۔ دوسری طرف پاکستان اور ایران کے تعلقات میں کبھی گرمجوشی اور کبھی سرد مہری رہی۔ وجہ یہ ہے کہ جب امریکہ اور ایران کے اختلافات بڑھے تو پاکستان ہمیشہ امریکی بلاک میں ہی رہا اور سعودی عرب بھی ہمیشہ سے امریکی بلاک میں رہا۔ جسکی وجہ سے پاکستان اور ایران کے باہمی تعلقات میں شہنشاہ ایران جو کہ امریکہ کا حلیف تھا کے دور میں تو دونوں ممالک کے باہمی تعلقات خاصے مربوط رہے مگر 1979ءمیں امام خمینی نے اسلامی جمہوریہ ایران کی بنیاد رکھی تو امریکہ اورمغربی ممالک سے سیاسی اور فوجی روابط ختم کردئیے۔ اور زاہدان ریڈیو نے پاکستان کے خلاف امریکی ایجنٹ ہونے کا الزام عائد کردیا۔ تاہم بعد میں 1986ءمیں ایران کے صدر خامنہ ای پاکستان کے سرکاری دورے پر آئے جس پر تجدید تعلقات کیلئے موثر اقدامات اٹھانے کا اعلان کیا گیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ 1965ءاور 1971ءکی جنگوں میں ایران نے اپنے سارے وسائل پاکستان کیلئے وقف کردینے کا اعلان کیااور اقوام متحدہ کے فورم پر بھی ایران نے پاکستان کے حق میں آواز اٹھائی۔
ایران اور سعودی عرب دونوں ہی پاکستان کے دایاں اور بایاں بازو ہیں۔ ہمارے لئے کسی طرح بھی ممکن نہیں ہے کہ ہماری حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کاکسی ایک ملک کی طرف اسقدر جھکاﺅ ہو کر دوسرا ملک ہمارے ساتھ ناراض ہوجائے ۔ اس وقت ہماری خارجہ پالیسی کا امتحان ہے۔ کاش ہمارے پاس آغا شاہی یا صاحبزادہ یعقوب علی خاں جیسا زیرک خارجہ امور کا ماہر ہو۔ کوئی ذوالفقار علی بھٹو جیسا خارجہ امور کا وژن رکھنے والا لیڈر ہو جو اپنے ذاتی مفادات کی پرواہ نہ کرتے ہوئے برارد مسلم ممالک کے درمیان توازن برقرار رکھے اور دونوں ممالک کو کسی صورت میں یہ محسوس نہ ہو کہ پاکستان غیر منصفانہ طور پر اپنی حمایت کسی ایک پلڑے میں رکھ رہا ہے۔ میری ذاتی رائے میں اگر پاکستان اس مسئلے پر ایرانی قیادت سے براہ راست بات کرے اور پاکستان کی ذاتی مجبوریوں اور معاشی مشکلات ذکر کرے تو میں یہ سمجھتا ہوں کہ ایرانی قیادت وسیع القلبی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پاکستان کو یمن کے معاملے پر اپنے ملکی مفادات پر برا نہیں منائے گی۔ اس طرح بعض قبائل معاشرت کے عرب اپنے احسانات کے بدلے سہی کھری کھری سنانا شروع کر دیتے ہیں
تقدیر کے قاضی کا یہ فتویٰ ہے ازل سے
ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات