• news

صوبائی حکومتوں پر چھوٹے آبی ذخائر کی ذمہ داری

احمد جمال نظامی

بجلی کی لوڈشیڈنگ موسم گرما کے آغاز کے ساتھ ہی گذشتہ برس کی طرح بڑھ چکی ہے بالترتیب ہر ایک گھنٹے بعد ایک گھنٹے کے لئے بجلی کی لوڈشیڈنگ کا بدترین سلسلہ جاری ہے جس پر شہری، صنعتی، تجارتی اور زرعی حلقوں کی طرف سے گہری تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے جبکہ حکومت بجلی کی لوڈشیڈنگ پر قابو پانے کے لئے کالاباغ ڈیم سمیت کسی بھی آبی ذخائر کی صورت میں کوئی ایسا منصوبہ شروع کرنے کی بجائے کہ جس کے ذریعے مستقل بنیادوں پر توانائی بحران کو جڑ سے اکھاڑنے کا خواب دیکھا جا سکے، مارکیٹیں رات آٹھ بجے بند کروانے کی پالیسی پر گامزن نظر آتی ہے۔ رات آٹھ بجے مارکیٹیں بند کرنے کا فیصلہ بلاشبہ توانائی بحران کے تناظر میں درست ہے مگر سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایک طرف تو بجلی بچت کے لئے ایسی کوئی بھی مہم کارآمد ثابت ہو سکتی ہے مگر دوسری طرف اس حقیقت کو کیسے نظرانداز کیا جا سکتا ہے کہ بجلی کے بحران کو ختم کرنے کے لئے دراصل طلب اور رسد کے درمیان فرق کو ختم کرنا ضروری ہے۔ رات آٹھ بجے مارکیٹیں بند ہونی چاہئیں یا نہیں اس بارے میں سوال ہی کرنا بیکار ہے کیونکہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ تاجر برادری ملک کے وسیع تر مفاد میں رات آٹھ بجے مارکیٹیں بند کرنے کے فیصلے کو خوش دلی سے تسلیم کر لیتی مگر اُلٹا تاجر مارکیٹیں رات ایک بجے تک کھلی رکھنے کے لئے لاہور ہائی کورٹ چلے گئے جہاں سے حکومت کی طرف سے رات آٹھ بجے مارکیٹیں بند کروانے کے ممکنہ فیصلے کے خلاف درخواست خارج کرتے ہوئے لاہور ہائیکورٹ نے واضح کر دیا ہے کہ مارکیٹیں رات ایک بجے تک کھلی رہیں گی تو عوام کو بجلی کیسے ملے گی۔ اس وقت ایک طرف ہمارے ملک میں بجلی کا بحران جو سال کے بارہ ماہ جاری رہتا ہے اور موسم گرما میں اس کی شدت میں بہت زیادہ اضافہ ہو جاتا ہے۔ یہ بحران حد سے زیادہ بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ حکومت کی طرف سے چین کے ساتھ ایسے متعدد منصوبوں پر کام شروع کیا گیا تھا جن کے ذریعے بجلی کی پیداوار میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ عمران خان نے انتخابات کے زمانے میں شہباز شریف کو انتخابی مہم کے دوران بار بار اٹھارویں ترمیم یاد کرواتے ہوئے باور کروایا تھا کہ شہباز شریف بھی 2008ء کے انتخابات میں پنجاب کے وزیر اعلیٰ منتخب ہوئے تھے اور وہ اٹھارویں ترمیم کی روح سے پنجاب میں چھوٹے بڑے ڈیم بنا کر بجلی کی پیداوار کو یقینی بنا سکتے تھے اور اس طرح پنجاب جو آبادی کے لحاظ سے ملک کی ساٹھ فیصد آبادی کا رقبہ ہے وہاں بجلی کی ضروریات کو پورا کرتے ہوئے دوسرے صوبوں کو بھی پنجاب نیشنل گرڈ سٹیشن کے ذریعے بجلی کی سپلائی کر کے صوبے کی آمدن میں اضافہ کر سکتا تھا۔ صوبہ خیبر پی کے میں تحریک انصاف کے وزیراعلیٰ ہیں۔صوبہ خیبر پی کے میں گلیشیئر اور پہاڑوں سے آنے والے برفوں کے پانی پر چھوٹے ڈیم تعمیر نہیں کر رہے۔ کیا وجہ ہے کہ عمران خان جو صوبہ خیبر پی کے کی حکومت کو بھی اپنی مرضی کے بغیر کوئی کام نہیں کرنے دیتے وہ حکومت اٹھارویں ترمیم کے تحت وہاں آبی ذخائر چاہے چھوٹے ہی سہی تعمیر کیوں نہیں کر رہے۔ کیا وجہ ہے کہ جب صوبہ خیبر پی کے کی بجلی کا اختیار عمران خان کی حکومت کو وفاق دینے کا اعلان کرتی ہے تو ان کی حکومت کنی کترانے لگتی ہے اسی طرح کیا وجہ ہے کہ شہباز شریف مینار پاکستان کے سائے میں آصف علی زرداری کے دور اقتدار میں تو کیمپ آفس لگا کر احتجاج کرتے رہے ہیں اب نہ احتجاج کرتے ہیں اور نہ ہی بجلی کے بحران کے حل کے لئے وفاقی حکومت سے کوئی بات ان کی طرف سے سامنے آتی ہے۔ کیا وجہ ہے کہ صوبہ خیبر پی کے کی طرح پنجاب میں بھی صوبائی حکومت کوئی آبی ذخیرہ تعمیر کرنے کی کوشش تو دور کی بات سوچنا تک گوارا نہیں کر رہی۔ کیا وجہ ہے کہ دریائے چناب کے مقام پر بھی وعدے کے مطابق کوئی ڈیم تعمیر ہوتا نظر نہیں آتا۔ اسی طرح دیگر مقامات پر پنجاب حکومت صوبہ خیبر پی کے کی حکومت اپنا اٹھارویں ترمیم کے تحت کردار ادا کر سکتی ہے مگر دونوں حکومتیں ہی خاموش تماشائی کا کردار ادا کر رہی ہیں۔ رہی سہی کسر تاجر برادری نے رات آٹھ بجے دکانیں بند نہ کرنے کے حکومتی فیصلے کو مسترد کر کے نکال دی ہے۔ وزیراعظم نواز شریف کو بھی اپنے وعدوں کی پاسداری کرنی چاہیے۔ پیپلز پارٹی کا سیاسی حشر ذہن نشین رکھنا چاہیے اور انہیں چاہیے کہ وہ کالاباغ ڈیم سمیت تمام آبی ذخائر کی تعمیر کے لئے جرأت مندانہ کردار ادا کریں۔ کم از کم اتنی جرات تو پیدا کریں کہ دیامیر بھاشا ڈیم کی تعمیر مکمل کر کے اس تماشا بنے ہوئے معمہ کو حل کر دیا جائے۔ دنیا واقعی چاند پر پہنچ چکی ہے جس طرح کہ دعوے اور اس بات کو محاورہ ہمارے حکمران استعمال کرتے ہیں لیکن انہیں سوچنا چاہیے کہ وہ ترقی کے اس دور میں خود کون سے زینے طے کر رہے ہیں۔ پاکستان کے سٹرٹیجک اور جغرافیائی حیثیت کو معاشی و اقتصادی طور پر آج پوری دنیا تسلیم کرنے کو تیار ہو چکی ہے۔ گوادر بندرگاہ کی تعمیر اور موٹرویز کے اس کے ساتھ انٹرلنک کی صورت میں پاکستان کا پوری دنیا میں کیا مقام ہو گا اس کو ہم سے بہتر حکمران جانتے ہیں تو پھر کیوں نہ فوری طور پر بجلی کے بحران کو حل کرنے کی طرف ساری توجہ مبذول کر لی جائے اور عارضی بنیادوں پر رات آٹھ بجے مارکیٹیں بند کروائی جائیں اور پھر طویل المدت کے لئے آبی ذخائر کے ذریعے بجلی کے بحران کو حل کرنے کی طرف پیش قدمی شروع کر دی جائے، عملی پیش قدمی۔ اسی طرح اگر ہمارے ملک میں مارکیٹیں رات آٹھ بجے بند کرنے کا کلچر فروغ پا گیا تو اس سے معاشی و اقتصادی ترقی کے علاوہ معاشرتی ترقی کا ایک ایسا سنہری دور شروع ہو جائے گا جہاں بہت ساری ایسی روایات اور فوائد حاصل ہونے لگیں گے جن کی وجہ سے ایسے ایسے مسائل اور نت نئے فتنے فروغ پا چکے ہیں اور پا رہے ہیں کہ ان کا خاتمہ ازبس ضروری ہے۔

ای پیپر-دی نیشن