انسانی حقوق احترام آدمی ہے اور تنویر عباس تابش
ہیومن رائٹس آف پاکستان کے سربراہ نامور قانون دان اور دانشور ایس ایم ظفر نے ایک مرتبہ کہا تھا کہ بنیادی اور انسانی حقوق احترام انسانیت کا نام ہے۔ میرا خیال ہے کہ اس سے بڑھ کر اس کی تعریف نہیں ہو سکتی۔ وہ ہر سال ایوارڈ کی میٹنگ بھی کرتے ہیں اور ایسے نامور اور جینوئن لوگوں کو ایوارڈ دیتے ہیں جنہوں نے احترام آدمی اور انسانوں کی خدمت کا حق ادا کر دیا ہے۔ یہ ایوارڈ جس آدمی کو ملتا ہے وہ اسے ہمیشہ سب سے بڑے اعزاز کی طرح اپنے پاس رکھتا ہے۔
ایک بار جسٹس (ر) رانا بھگوان داس کو ایوارڈ دیا گیا اور وہ بڑے شوق سے تشریف لائے۔ انہوں نے عجیب بات کی کہ مسلمان مجھے کافر سمجھتے ہیں اور کافر مجھے مسلمان سمجھتے ہیں۔ ظفر صاحب کا خیال ہے کہ ہم آپ کو ایک سچا اور بہت بڑا انسان سمجھتے ہیں اور اسی لئے آپ کی خدمت میں ایوارڈ پیش کر رہے ہیں۔ پاکستان سپریم کورٹ کے کرسچین چیف جسٹس اے آر کارنیلس کہتے تھے کہ میں ’’آئینی مسلمان‘‘ ہوں۔
میں نے ایک بار لکھا تھا کہ اس ایوارڈ کی جو عزت ہے وہ بہت ہے مگر یہ بھی کوشش ہونا چاہئے کہ لوگوں کو اپنا ریوارڈ بھی ملے اور کبھی ایسا موقع بھی آئے کہ ایوارڈ اور ریوارڈ میں فرق مٹ جائے۔ ایس ایم ظفر کے مخلص اور اچھے دل والے لوگوں کی ایک ٹیم ہے۔ چودھری بشیر ہمایوں احسان، مہناز رفیع، تنویر عباس تابش، علی ظفر، عاصم ظفر اور شکوری صاحب بہت جذبے سے کام کرتے ہیں۔
مجھے نامور صحافی خاور نعیم ہاشمی کی یہ بات نہیں بھولتی جو انہوں نے ایک شہید ساتھی کا ایوارڈ وصول کرتے ہوئے کہی تھی کہ مجھے بھی ایوارڈ ملے ہیں مگر یہ ایوارڈ وصول کرتے ہوئے میں اپنے آپ کو بہت معزز اور معتبر محسوس کر رہا ہوں۔ ایس ایم ظفر نے ساری زندگی امید کے چراغ جلاتے ہوئے گزاری ہے۔ وہ سادگی اور آسودگی کو زندگی کا حصہ بنانے کے قائل ہیں اور زندگی کو ایک اور زندگی بنانا چاہتے ہیں جو زندگی گزارتے ہوئے آدمی فخر محسوس کرے۔ ہمیں یہ بھی فخر ہو کہ ہم پاکستانی ہیں۔ ایک عجیب جملہ میرے ذہن میں آیا ہے کہ جو زندگی آدمی بسر نہیں کرتا وہ بھی گزر جاتی ہے۔ اللہ کرے ہم پوری زندگی اپنی مرضی اور مستی سے گزاریں اور کوئی خواہ مخواہ کسی کو تنگ نہ کرے اور اپنی دکان نہ چمکائے۔
پچھلے دنوں ایک شاندار میٹنگ ہیومن رائٹس سوسائٹی آف پاکستان کے زیراہتمام بہترین خطیب اور بہت اچھے قابل انسان تنویر عباس تابش کے لئے ہوئی جس کی صدارت ایس ایم ظفر نے کی۔ یہ کسی تقریب کا اعزاز ہے کہ اس کی صدارت ظفر صاحب کریں۔ وہ اپنی سوسائٹی کی ہر تقریب کی صدارت کرتے ہیں جیسے نظریہ پاکستان ٹرسٹ کی ہر تقریب کی صدارت ڈاکٹر مجید نظامی کرتے تھے۔ ظفر صاحب کو ان کی بات پسند تھی کہ وہ جینوئن لوگوں کو بڑے انوکھے اور بامعنی خطاب سے نوازتے ہیں جو کسی اعلیٰ ایوارڈ سے کم نہیں ہے۔ محترمہ فاطمہ جناح کو مادر ملت کا خطاب انہوں نے دیا تھا جسے قوم نے بڑے دل سے قبول کیا۔ انہوں نے بشریٰ رحمن کو بلبل پاکستان، دختر پاکستان کا خطاب دیا، ڈاکٹر رفیق احمد کو پسر پاکستان کا خطاب دیا۔ بڑھاپے میں بھی اس خطاب کو ایک افتخار کی طرح ڈاکٹر صاحب نے محسوس کیا تو ظفر صاحب نے کہا کہ ہمیں مجید نظامی کو بھی خطاب دینا چاہئے۔ جو ان کے شایان شان ہو۔ اس وقت رہبر پاکستان کا خطاب تجویز میں آیا تھا۔ شاہد رشید ہمیشہ انہیں تقریبات میں آبروئے صحافت کہتے تھے۔ سعید آسی نے انہیں اپنے کالم میں امام صحافت کا نام دیا۔ میں انہیں مرشد و محبوب کہتا ہوں۔ اس طرح مرشد صحافت و سیاست کا خطاب بھی قابل غور ہے۔
تنویر عباس تابش کی محفل میری اس تجویز پر منعقد کی گئی تھی کہ انہیں بہترین کمپیئر کا ایوارڈ دیا جائے مگر یہ تقریب بھی کسی ایوارڈ سے کم نہ تھی۔ ظفر صاحب نے فرمایا کہ ہم اپنے کسی ساتھی کو ایوارڈ نہیں دیتے۔ تقریب کا اہتمام اور اخراجات جناب عاصم ظفر نے کئے تھے۔ یہ ایک زبردست تقریب تھی۔ تقریب میں دلیر دیانتدار اور بہترین پولیس افسر ذوالفقار چیمہ نے کہا کہ شورش کاشمیری نے تنویر عباس تابش کو سنا تو کہا کہ ایسا نوجوان خطیب اگر ہے تو مجھے کوئی فکر نہیں ہے۔ کئی اور نامور لوگوں نے تنویر عباس تابش کی تعریف کی۔ میں نے کہا پنجاب یونیورسٹی میں ہم بھی تقریر بازی میں آگے آگے تھے۔ مگر جب ہم نے تنویر عباس تابش کو سنا تو سوچا کہ ہمارے عہد میں کوئی تنویر عباس تابش جیسا خطیب نہیں ہے۔ تنویر عباس تابش لوگوں کے دلوں میں آگ لگانے اور دلوں میں پھول کھلانے کا فن جانتے ہیں۔ یہ کام وہ بیک وقت بھی کر سکتے ہیں۔ وہ ہیومن رائٹس سوسائٹی آف پاکستان کی ہر تقریب کی کمپیئرنگ کرتے ہیں۔ اور خوب کرتے ہیں۔ ہر بار نئی طرز اظہار کی روشنی پھیلاتے ہیں۔ علامہ اقبال کے اشعار اس ادائے دلبری سے پڑھتے ہیں جیسے یہ ان کے اپنے اشعار ہوں۔ ان کی کمپئرنگ اسی طرح باقاعدہ ہے جس طرح ظفر صاحب کی صدارت ناگزیر ہے۔ تنویر عباس تابش جس طرح محفل کو آگے بڑھاتے ہیں میں ہمیشہ کہتا ہوں کہ کمپیئر ہر لحاظ سے اینکر پرسن سے بہتر ہوتا ہے۔
تنویر عباس تابش کے پاس علم بھی ہے اور حلم بھی ہے۔ ہوش بھی اور جوش بھی۔ ان دونوں کے امتزاج سے وہ اپنی زوردار گفتگو کا مزاج بتاتا ہے۔ اس کے پاس جلال و جمال دونوں ہوتے ہیں۔ وہ جمال سے جلال اور جلال سے جمال کا کام لیتا ہے۔ تقریب میں ہماری بہن مسز تنویر عباس تابش بھی موجود تھی اور حیرت ہے کہ تنویر عباس تابش نے ان کی کھلے عام تعریف کی۔ خطیب تو وہ بہت بڑے ہیں مگر وہ شوہر بھی بہت بڑے ہیں۔ میں اس شوہر نامدار کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔ ان کی یہ ادا خطابت کی طرح مجھے بہت اچھی لگی۔