پاکستان چین معاہدے، گوادر بندرگاہ کا معاملہ: بھارت کو تشویش
نئی دہلی (آئی این پی) پاکستان اور چین کے درمیان اربوں ڈالر کے ترقیاتی منصوبوں کے معاہدوں اور گوادر بندرگاہ لیز پر دئیے جانے پر بھارت میں تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔ بھارت کے سابق سفارتکار راجیو ڈوگرا نے کہا ہے کہ ڈھائی ہزار کلومیٹر لمبی اقتصادی راہداری متنازعہ علاقوں سے گزرے گی جس پر بھارت کو اعتراض ہو گا۔ بھارت نے پہلے بھی ایسے منصوبوں پر اعتراض کیا ہے اور اب بھی کرے گا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ چین اس راہداری کے ذریعے طویل تجارتی راستے کو کم کرنا چاہتا ہے اس سے خطے میں بھی اس کی پوزیشن مستحکم ہو گی۔ گوادر بندرگاہ کو لیز پر چین کے حوالے کیے جانے پر بھارت میں پہلے بھی تشویش اور فکر رہی ہے۔ اگرچہ اس کا بنیادی پہلو اقتصادی ہے لیکن چین نے پاکستان کو آٹھ آبدوزیں بھی دینے کی بات کی ہے اور یہ جوہری بھی ہو سکتی ہیں۔ گوادر بندرگاہ چین کی بحریہ کا اڈہ بھی بن سکتا ہے۔ اس لئے اس کے دفاعی پہلو کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ چین نے پٹرول اور گیس کی سکیورٹی کے معاملے میں بہت کامیاب سفارتکاری کی اب اس کی نظر عرب اور خلیجی ملکوں پر ہے۔ پاکستان کے توسط سے وہ اب اپنی توجہ عرب ممالک اور ایران پر مرکوز کر سکے گا۔ جواہر لال نہرو یونیورسٹی میں چینی امور کے مطالعے کی پروفیسر ڈاکٹر الکا اچاریہ نے کہا ہے کہ خطے میں چین کی سرگرمیاں جس رفتار سے بڑھی ہیں وقت آگیا ہے کہ بھارت کو ان کے بارے میں چین سے کھل کر بات کرنی چاہیے۔ بھارت کو چاہیے کہ وہ اپنی تشویش سے چین کو آگاہ کرے اس کے ساتھ اس پہلو پر بات ہونی چاہیے کہ کون سی سرگرمی قابل قبول ہے اور کون سی نہیں۔ بھارت کو کاشغر سے گودار تک جانے والی اقتصادی راہداری پر تشویش ہے۔