نواز شریف بزدل آدمی ہیں، شیر نہیں بن سکتے، الطاف قتل کرانا چھوڑ دیں بھائی مان لوں گا: عمران
اسلام آباد (نوائے وقت رپورٹ) عمران خان نے کہا ہے کہ نوازشریف بزدل آدمی ہیں وہ شیر نہیں بن سکتے۔ تحریک انصاف جنون کا نام ہے۔ ایک تقریب سے خطاب میں انہوں نے کہا کہ این اے 246انتخابات میں خواتین خاص طور پر ووٹ دیں گی۔ قبل ازیں عمران خان سے گلگت بلتستان کی 4اہم سیاسی شخصیات نے ملاقات کی۔ فتح اللہ خان، نوشاد عالم، عطاء الرحمن اور مہر داد نے پی ٹی آئی میں شمولیت کا اعلان کیا۔ اس موقع پر عمران خان نے کہا کہ پسماندہ علاقوں کی ترقی پر خصوصی توجہ دیں گے۔ ٹی وی انٹرویو میں عمران نے کہا کہ کراچی میں بزنس مین بکتر بند گاڑی میں سفر کرنے پر مجبور ہے۔ رینجرز کے آپریشن سے فرق پڑے گا، کراچی کو بلدیاتی نظام اور غیرجانبدار پولیس چاہئے، جماعت اسلامی سمجھتی ہے این اے 246میں وہ زیادہ مضبوط ہے۔ الطاف حسین قتل کرانا چھوڑ دیں تو انہیں بھائی مان لوں گا۔ عمران اسماعیل کو انتخابی مہم کے دوران تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ عزیز آباد لوگوں نے زندگی بدلنی ہے تو بلے پر ٹھپہ لگائیں، کراچی جب تک ٹھیک نہیں ہو گا پاکستان ٹھیک نہیں ہو گا۔ عمران نے پی سی بی میں تبدیلی کے خورشید شاہ کے مطالبے کی حمایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ کرکٹ بورڈ کا چیئرمین وہی ہونا چاہئے جو کرکٹ جانتا ہو، لوگوں کو میرٹ پر نہ لایا گیا تو کرکٹ تباہ ہو جائے گی۔ بنگلہ دیش سے شکست ناقابل یقین ہے پاکستان زمبابوے اور بنگلہ دیش کے برابر آ گیا ہے۔ بھارت نے نظام ٹھیک کیا اور وہ آگے نکل گئے۔
لاہور (محمد دلاور چودھری) کراچی کے حلقہ این اے 246 میں آج پولنگ ہونے جا رہی ہے۔ حلقے میں ووٹروں کی کل تعداد ساڑھے 3 لاکھ سے زائد ہے جس میں سے ایک لاکھ 85 ہزار ووٹر لیاقت آباد (لالو کھیت) میں رہتے ہیں اور یہ علاقہ ایم کیو ایم کا مضبوط گڑھ تصور ہوتا ہے اور ہر الیکشن میں بہت اہم کردار ادا کرتا ہے۔ عام انتخابات میں اس حلقے میں ایک لاکھ 85 ہزار سے زائد ووٹ ڈالے گئے جن میں سے 139350 ووٹ متحدہ کے اس وقت کے امیدوار نبیل گبول نے حاصل کئے جو کل ڈالے گئے ووٹوں کا 75.2 فیصد بنتے ہیں۔ (اس وقت نبیل گبول متحدہ کے ساتھ نہیں ہیں اور نہ ہی یہ ان کا آبائی حلقہ ہے) 11مئی 2013ء میں تحریک انصاف کے امیدوار عامر شرجیل تھے جنہوں نے 32048 ووٹ حاصل کئے تھے جو کل ڈالے گئے ووٹوں کا 17.3 فیصد بنتے ہیں۔ اسی طرح جماعت اسلامی کے امیدوار راشد نسیم (جو اس مرتبہ بھی امیدوار ہیں) نے 10258 ووٹ لئے تھے جو کل ڈالے گئے ووٹوں کا 5.5 فیصد بنتا ہے۔ (جماعت اسلامی نے دوپہر کے بعد الیکشن بائیکاٹ کا اعلان کر دیا تھا۔) اگرچہ اس الیکشن میں بھی متحدہ قومی موومنٹ کا پلڑا بھاری نظر آتا ہے لیکن تحریک انصاف کا پلس پوائنٹ یہ ہے کہ وہ اپنی جارحانہ حکمت عملی سے (جو کراچی میں متحدہ کے خلاف کم ہی دیکھنے میں آتی ہے اور اس وجہ سے آج کے دن کشیدگی کا خطرہ بھی ہے۔) اس الیکشن کو نہ صرف قومی بلکہ کسی حد تک عالمی سطح پر بھی اُجاگر کرنے میں کامیاب رہی ہے اور اس کا بھرپور سیاسی فائدہ نہ صرف کراچی بلکہ پورے ملک میں حاصل کیا ہے۔ این اے 246 ان علاقوں پر مشتمل ہے کہ جہاں عملی طور پر ایم کیو ایم کی تشکیل ہوئی تھی اور اس کا ہیڈکوارٹر ’’نائن زیرو‘‘ بھی اس حلقے کا حصہ ہے۔ بظاہر نظر یہی آ رہا ہے کہ ضمنی الیکشن میں متحدہ کے امیدوار کنور نوید جمیل کو تحریک انصاف کے امیدوار عمران اسماعیل پر ووٹوں کی برتری حاصل ہو جائے گی اور وہ جیتنے میں کامیاب ہو جائیں گے تاہم اس حلقہ میں ہار جیت سے زیادہ اہمیت ووٹوں کے تناسب کی ہو گی۔ ضمنی الیکشن میں ٹرن آؤٹ اکثر کم رہتا ہے لیکن اگر تحریک انصاف ٹرن آؤٹ بڑھانے میں کامیاب رہی تو یہ اس کی بہت بڑی جیت ہو گی اور اگر ٹرن آؤٹ کم ہی رہا تو نظر اس تناسب پر ہو گی جس سے امیدواروں کو ووٹ ملیں گے یعنی اگر متحدہ 75.2 فیصد کا تناسب برقرار نہ رکھ سکی اور متحدہ 17.3 کے تناسب سے زیادہ ووٹ لے گئی تو نفسیاتی طور پر سمجھا جائے گا کہ کراچی میں تحریک انصاف کی مقبولیت بڑھ رہی ہے جو متحدہ کیلئے لمحہ فکریہ ہو گا۔ اسی طرح اگر تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کے امیدواروں نے بھی مجموعی طور پر 22.8 فیصد سے زائد ووٹ لئے اور متحدہ کو ووٹنگ 75.2 فیصد سے کم رہی تو بھی متحدہ کیلئے یہ مستقبل کی کوئی اچھی نوید نہیں ہو گی۔ اگرچہ متحدہ کے امیدوار یہ کہہ رہے ہیں کہ ہمارے کارکنوں کو گرفتار کیا جا رہا ہے۔ ہمارے لئے پولنگ سٹیشن بدل کر انتظامی طور پر الیکشن میں مشکلات پیدا کی جا رہی ہیں لیکن یہ جواز گرتے ہوئے تناسب کو سہارا نہیں دے سکے گا کیونکہ پھر یہ سوال بھی اٹھے گا کہ اگر کوئی زیادتی ہو رہی ہے تو ہمدردی کے ووٹ میں اضافہ ہونا چاہئے تھا پھر متحدہ تو خود سندھ حکومت کا حصہ ہے اور حکومتی امیدوار ضمنی الیکشن میں ایسے جواز پیش نہیں کر سکتے۔ قصہ مختصر کہا جا سکتا ہے کہ آج کا الیکشن ہار جیت کی بجائے ووٹوں کے تناسب کا الیکشن ہو گا اور تینوں بڑی پارٹیوں کو آج کے دن یہ ذہن میں رکھ کر ہی انتخابی دنگل میں اُترنا ہو گا۔