پبلک اکائونٹس کمیٹی نے منصوبہ بندی کمشن سے تمام جاری منصوبوں کی تفصیلات طلب کرلیں
اسلام آباد (اے پی پی) پبلک اکائونٹس کمیٹی نے سرکاری شعبہ کے اب تک جاری منصوبوں کے حوالے سے منصوبہ بندی کمشن کو ہدایت کی ہے کہ 903 جاری منصوبوں کی تاریخوں اور سال کے حساب سے الگ الگ تفصیلات پی اے سی کو فراہم کی جائیں جبکہ جو منصوبے 2001ء سے 2015ء تک ختم نہیں ہو سکے ان منصوبوں کا بے انتہا پھیلائو روکنے کیلئے کوئی فارمولا بنانا ہوگا۔ اجلاس سید خورشید احمد شاہ کی زیر صدار ت ہوا۔ وزارت قانون و انصاف و انسانی حقوق کے 2009-10ء کے آڈٹ اعتراضات کے جائزے کے دوران سیکرٹری قانون و انصاف جسٹس (ر) سردار رضا خان نے بتایا کہ بجٹ میں سیونگ اسلئے ہوئی کیونکہ انسانی حقوق سیکرٹریٹ کو کرائے کی عمارت میں منتقل کرنا تھا مگر اس وقت اس کی ہائرنگ نہیں ہو سکتی تھی، اسلئے مقررہ بجٹ خرچ نہیں ہو سکا۔ وزارت میں آسامیوں کیلئے بچا کر رکھی گئی رقم پر چیئرمین پی اے سی نے کہا کہ یہ وزارت پر لازمی ہے کہ 15 مئی تک فاضل بجٹ کو ہر قیمت پر سرنڈر کیا جائے۔ سید نوید قمر نے کہا کہ ایک طرف وزارت ضمنی بجٹ لیتی ہے تو دوسری طرف وہ رقم خرچ نہیں ہوتی، اس سے تو صاف ظاہر ہے کہ منصوبہ بندی کا فقدان ہے۔ ڈاکٹر عارف علوی نے کہا کہ افراد نہ بھی ہوں تو ادارے تو موجود ہوتے ہیں۔ سید خورشید شاہ نے کہا کہ اداروں کو تو سزا نہیں دی جا سکتی ہے، افراد ہی ذمہ دار ہوتے ہیں۔ پی اے سی کے استفسار پر سیکرٹری خزانہ ڈاکٹر وقار مسعود نے پی اے سی کو بتایا کہ گردشی قرضوں کے حوالے سے تفصیلات وزارت پانی و بجلی دے سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ فیصلہ ہوا ہے کہ گردشی قرضوں کی حد کو 250 ارب کی سطح پر رکھنا ہے، ابھی یہ رقم 250 ارب سے کم ہے۔ سیکرٹری منصوبہ بندی کمشن نے پی اے سی کو جاری ترقیاتی پروگراموں کے حوالے سے بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ ترقیاتی پروگراموں کی ڈیمانڈ بہت زیادہ ہیں، پی ایس ڈی پی 2014-15 کے تحت 525 ارب مختص کئے گئے تھے، ہم پی ایس ڈی پی میں کوئی کٹوتی نہیں کرنیوالے۔ سیکرٹری منصوبہ بندی کمیشن نے پی اے سی کے استفسار پر کہا کہ پی ایس ڈی پی کے تحت تین سہ ماہیوں کے 369 ارب بنتے ہیں جن میں سے 304 ارب جاری کئے جا چکے ہیں۔ بریفنگ میں بتایا گیا کہ 903 جاری منصوبوں کی کل لاگت 5008 ارب روپے ہے، مارچ 2015ء تک 1612 ارب روپے خرچ کئے گئے۔ ان میں گزشتہ مالی سال کے 3602 ارب روپے بھی شامل ہیں جو یکم جولائی 2014ء کو فارورڈ ہوئے۔