فروغ اسم محمد ہو بستیوں میں منیر
نامور ایڈووکیٹ روحانی دانشور اہل اور اہل دل بہادر انسان دوستوں کے دوست منصورالرحمن آفریدی کہتے ہیں کہ اب میرا جی چاہتا ہے کہ میں اب باقی زندگی عشق رسول کی بات کروں اور لوگوں کو بتاﺅں کہ وہ کتنی محبت کرنے والے اور محبت پھیلانے والے ہیں۔ رحمت اللعالمین محسن انسانیت پیغمبر آخر حضرت محمد کے بارے میں لوگوں کو بتا دیا جائے تو یہی اصل میں عشق رسول ہے۔
فروغ اسم محمد ہو بستیوں میں منیر
قدیم یاد نئے مسکنوں سے پیدا ہو
یہ عدم برداشت کا زمانہ ہے۔ کوئی کسی کی بات سننے کے لئے تیار نہیں۔ اور سمجھتا ہے کہ صرف میں صحیح ہوں۔ میں مسلمان ہوں اور جو میری طرح مسلمان نہیں ہے وہ مسلمان نہیں ہے۔
حضور جب کسی مخالف یا منافق سے گفتگو فرماتے تو اس کی خوبیاں بیان کرتے اس کی اچھی باتوں کی تعریف کرتے۔ اس طرح اس کے دل میں آپ کے لئے عزت پیدا ہو جاتی اور دین کی بات اس تک پہنچ جاتی۔ کیا اچھی بات ہے کہ آپ محسن انسانیت ہیں اور اپنی شریک حیات ام المومنین حضرت خدیجتہ الکبریٰؓ کو اپنی محسنہ کہتے ہیں۔ اس سے بڑھ کر عورت کی کیا عزت ہو سکتی ہے۔ آفریدی صاحب نے کہا کہ ان کے احسانات پوری انسانیت پر ہیں۔ انہوں نے فرمایا کہ تمام انسان ایک ماں باپ کی اولاد ہی ہیں۔ اس لحاظ سے سب برابر ہیں۔ انہوں نے فرمایا کہ کسی گورے کو کالے پر کسی عربی کو عجمی پر کوئی فوقیت نہیں مگر تقوے کی وجہ سے۔ اس طرح اللہ نے ذات پات اور اور دوسرے تفرقے مٹا دیے اور اچھائی کو ہر کسی کے لئے معیار مقرر کر دیا۔ انہوں نے عورت کو تکریم دی جس کی مثال آج کے زمانے میں بھی نہیں ملتی۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ان کی سیرت کا مطالعہ کیا جائے۔ اس حوالے سے کتابیں لکھی جائیں اور دنیا والوں کو ان کی حیات مقدسہ سے روشناس کرایا جائے۔ دنیا میں ایسا ہی ہو گا جیسے آپ نے فرمایا اور کر دکھایا۔
بیٹھ جائیں سایہ¿ دامان احمد میں منیر
اور پھر سوچیں وہ باتیں جن کو ہونا ہے ابھی
وہ واصف صاحب کا بہت ذکر کرتے ہیں۔ ان کا تعلق واصف صاحب کے ساتھ غیرمعمولی تھا۔ وہ انہیں جانتے تھے۔ اس لئے ان کے ساتھ واصف صاحب ایک مختلف رابطہ رکھتے تھے۔ مجھے بھی واصف صاحب کی صحبت میں حاضری دینے کا موقع ملا۔ میں ان کے پاس اکثر جاتا تھا۔ وہ علامتوں میں سادگی سے باتیں کرتے تھے۔ ان کی محفل میں پاکستان بھر میں دانشور اور عام لوگ حاضر ہوئے۔ شروع شروع میں ان کا یہ جملہ بہت معروف ہوا اور زبان زد عام ہوا....
”خوش نصیب وہ ہے جو اپنے نصیب پر خوش ہے۔ پاکستان نور ہے اور نور کو زوال نہیں ہے۔“
یہ بات آفریدی صاحب اکثر کرتے ہیں کہ پہلے دل والے لوگ چلہ کرتے تھے۔ کنوئیں میں لٹک جاتے تھے مگر آج کل جو مشکلات اور اذیتیں ہیں وہ کنوئیں میں لٹکنے سے زیادہ مشکل ہیں۔ اس دنیا میں اپنے آپ کو بچا کر رکھنا ہی بہت بڑی ریاضت ہے۔ واصف صاحب نے فرمایا کہ ”جو دنیاوی معاملات ہیں ان میں سے سب کو گزرنا پڑتا ہے۔ ہماری نفسیات یہ ہے کہ ہم زندگی فرعون کی گزارنا چاہتے ہیں اور آخرت موسیٰؑ کی چاہتے ہیں۔
میں ایک بار واصف کی محفل میں حاضر تھا۔ وہاں ایک آدمی بہت پریشان تھا۔ وہ بار بار عرض کر رہا تھا کہ دعا فرمائیںمیں نے بھی واصف صاحب کی خدمت میں عرض کیا تو انہوں نے دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے اور فرمایا ”اے اللہ اسلام کو ”مسلمانوں“ سے بچا۔“ ہم سب دم بخود رہ گئے مگر واصف صاحب نے کوئی اور بات چھیڑ دی۔
ایک دل والا دوست انگلینڈ گیا واپس آیا تو کسی نے پوچھا کہ وہاں آپ نے کیا دیکھا۔ اس نے کہا کہ وہاں میں نے اسلام دیکھا۔ مسلمان نہیں دیکھے۔ اس نے ایک اور سوال کر دیا یہاں کیا دیکھا۔ اس نے کہا یہاں مسلمان دیکھے اسلام نہیں دیکھا۔ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ اسلام کی سچی تصویر دنیا والوں کو دکھائی جائے۔ میرا دل کہتا ہے کہ وہ وقت زیادہ دور نہیں ہے جب دنیا میں ہر طرف عشق رسول کی فضا ہو گی لوگ ان کی زندگی سے باخبر ہونگے۔ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کی تفسیر چاروں طرف پھیل جائے گی جو قرآن پاک میں فرمایا گیا ہے۔ ورفعنا لک ذکرک ....اور ہم نے تیرے ذکر کو بلند کر دیا۔ اللہ کرے ہم یہ سربلندی دیکھنے کے لئے زندہ رہیں زندہ رہنا بھی ایک علامت ہے۔
بلھے شاہ اساں مرنا ناہیں
گور پیا کوئی ہور
ایک دوست وکیل کہنے لگا کہ آفریدی صاحب آپ درس قرآن دیتے ہیں مگر قرآن کی کوئی آیت بیان نہیں کرتے۔ آفریدی صاحب نے کہا کہ تم قرآن کا تفسیر کے ساتھ مطالعہ کرو پھر وہی جوان کہنے لگا کہ آفریدی صاحب آپ تو بیان ہی قرآن کو کرتے ہیں۔
گر تومی خواہی مسلماں زیستن
نیست ممکن جز بہ قرآں زیستن
میں ایک دن منصور الرحمٰن آفریدی کے پاس لنگر کھا رہا تھا۔ وہاں بہت خواتین و حضرات تھے۔ جنہیں اپنے ہاتھ سے کھانا ڈال کے منصور صاحب دے رہے تھے اور ان کی آنکھوں میں انوکھی چمک تھی انہوں نے کہا کہ رزق اللہ تعالیٰ کا ہے۔ میری ڈیوٹی صرف تقسیم کرنے کی ہے۔ یہ ڈیوٹی وہ ہر روز کرتے ہیں وہاں میرے ذہن میں خیال آیا کہ پنجاب یونیورسٹی کے دلیر اور دانشور وائس چانسلر ڈاکٹر مجاہد کامران کے پاس ایک دوست کہنے لگا۔ اللہ جب دنیا والوں پر خوش ہوتا ہے تو بارش بھیجتا ہے اور بارش ہر جگہ برستی ہے۔ اللہ اور زیادہ خوش ہوتا ہے تو بیٹیاں بھیجتا ہے اللہ بہت زیادہ خوش ہوتا ہے تو مہمان بھیجتا ہے۔ مہمان کو اللہ کی رحمت کہتے ہیں۔
کسی اللہ والے کے گھر مہمان نہ آیا تو اس نے راہ چلتے ایک آدمی کو اپنے دستر خوان پر ساتھ بٹھا لیا۔ مہمان نے بسم اللہ نہ پڑھی تو اس نے پوچھا کہ تم مسلمان نہیں ہو۔ مہمان نے بتایا کہ میں آتش پرست ہوں۔ دستر خوان سے اسے اٹھا دیا گیا کہ یہاں صرف مسلمان کا حق ہے۔ اللہ ناراض ہوا کہ میں تو برسوں تک اسے رزق دیتا رہا ہوں۔ یہ مجھے نہیں مانتا میرے خلاف بھی بولتا ہے تو نے آج ایک ہی روز میں اسے مسترد کر دیا۔ اللہ تو اپنے نہ ماننے والوں کا بھی رب ہے۔ رب العالمین اور اس کا محبوب رسول رحمت العالمین ہے۔ مجدد نعت حضرت حفیظ تائب کا شعر یاد آتا ہے۔
اب کونسی نعمت کی طلب حق سے کروں میں
دہلیز پہ سلطان مدینہ کی کھڑا ہوں