راولپنڈی کنٹونمنٹ اور چکلالہ کنٹونمنٹ
ڈاکٹر زاہد حسن چغتائی
پورے ملک کے کنٹونمنٹ بورڈز کے انتخابات کے مجموعی نتائج اگرچہ مسلم لیگ ن کے حق میں شاندار رہے تاہم کامیاب اور ناکام رہنے والے امیدواران کے مجموعی ووٹوں پر ایک طائرانہ نظر ڈالی جائے تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ تحریک انصاف نہ صرف دوسرے نمبر پر رہی بلکہ اکثر و بیشتر حلقوں میں سخت ترین مقابلے کے بعد ہی ناکامی سے دوچار ہوئی اس اعتبار سے یہ کہنا کھلی سچائی کے مترادف ہوگا کہ کم از کم صوبہ پنجاب کے تمام حلقوں میں مسلم لیگ ن کے مد مقابل اگر کوئی سخت کیش جماعت ہے تو اس کا نام پی ٹی آئی ہے الیکشن نتائج کی اس مجموعی صورتحال کے باوصف راولپنڈی کے جانان شہر کی دوکنٹونمنٹس یعنی راولپنڈی کنٹونمنٹ اور چکلالہ کنٹونمنٹ کے 20حلقوں میں 19کونسلرز مسلم لیگ ن کے کامیاب ہوئے جبکہ ایک کونسلر جماعت اسلامی کے ٹکٹ پر منتخب ہوا مسلم لیگ ن کے اُمیدواروں کو 19سیٹوں پر پی ٹی آئی کے امیدواروں کے ساتھ سخت مقابلے کے بعد ہی کامیابی حاصل ہوئی۔ حاصل کردہ ووٹوں سے یہ صورتحال بھی واضح ہوجاتی ہے کہ مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف کے امیدواران کے مابین سخت ہی نہیں بلکہ سخت ترین مقابلہ رہا لٰہذا مقابلہ تو دل ناتواں نے خوب کیا کے مصداق تحریک انصاف کے ناکام امیدواروں کے مجموعی حاصل کردہ ووٹوں کی تعداد بھی عوامی نمائندگی اور پذیرائی کے اعتبار سے بہت حوصلہ افزاءرہی۔ دونوں مدمقابل جماعتوں کی لیڈر شپ اور امیدوار اس امر پر بھی داد و تحسین کے مستحق ہیں کہ الیکشن کا سارا ماحول جمہوری خطوط پراستوار رہا اور بھائی چارے کا ماحول پیش کرتا رہا۔ اس حوالے سے یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ مذکورہ الیکشن جمہوری کلچر کے فروغ کے لےے حوصلہ افزاءثابت ہوئے ہیں نیز یہ بھی کہ شہر کے آئندہ بلدیاتی اور عام انتخابات میں بھی اس کے اثرات مثبت طور پر مرتب ہونگے۔
راولپنڈی کنٹونمنٹ اور چکلالہ کنٹونمنٹ کے ہر دو انتخابات میں گہما گہمی اور کنویسنگ کا سلسلہ بہت عروج پر رہا‘ تاہم ہر دو کنٹونمنٹس کے انتخابی ماحول میں فرق یہ تھا کہ راولپنڈی کے دس حلقوں کی سیاست میں عمومی طورپر تاجروں اور کاروباری حلقوں کا غلبہ رہا جبکہ چکلالہ کے دس حلقوں میں عمومی انتخابی ماحول عوامی اور لوگوں کے عام شہری مسائل کے تناظر میں رہا۔ مجموعی 20 حلقوں میں مسلم لیگ ن کے امیدواروں کی انتخابی سیاست کا رنگ نوازشریف اور شہباز شریف کی حکومتوں کے کارہائے نمایاں اور ان کی سیاسی قربانیوں کے ساتھ منسلک رہا۔ اس جماعت کی انتخابی مہم کو مقامی لیڈر شپ اپنے ہاتھ میں لئے رہی۔ اس ضمن میں سب سے زیادہ فعال شخصیت سینیٹر چوہدری تنویر کی تھی جبکہ سابق ایم این اے شکیل اعوان اور حنیف عباسی بھی اس مہم میں عملی سطح پر شامل رہے۔ انتخابی وسائل کے اعتبار سے مسلم لیگ ن کے تمام امیدواران انتہائی مستحکم تھے‘ جماعت کی مقامی لیڈر شپ نے ٹکٹوں کی تقسیم کے موقع پر ان امیدواروں کو اچھی طرح چھان پھٹک کر کے دیکھ لیا تھا۔ دوسری جانب تحریک انصاف کے اندر ٹکٹوں کی تقسیم پر بہت سے تنازعات تھے‘ جن کی وجہ سے ووٹوں کی تقسیم کی وجہ سے ایک منطقی نتیجہ بن کر سامنے آیا۔ اگرچہ بعد ازاں جماعت کی مقامی قیادت اور بعض مرکزی رہنما¶ں نے اس صورت حال کو کنٹرول کرنے کی کوشش کی مگر اس میں انہیں حتمی کامیابی حاصل نہ ہو سکی۔ بعض حلقوں میں ٹکٹوں کی تقسیم کے یہ اختلافات آخر تک اپنا رنگ بکھیرتے رہے‘ جس سے الیکشن کے نتائج میں مسلم لیگ ن کے امیدواروں کو ازحد فائد ہوا۔
ٹکٹوں کی تقسیم کے مرحلے پر مسلم لیگ ن نے فیصلہ کیا کہ منجھے ہوئے اور جماعت سے دیرینہ وابستگی رکھنے والے کارکنوں کو ہی ٹکٹ دیئے جائیں۔ عمومی طورپر پارٹی اپنے اس عزم پر قائم رہی اور نو آزمودہ لوگوں کو ٹکٹ دینے سے احتراز کیا گیا۔ اس کے مقابلے میں تحریک انصاف نے ٹکٹ دیتے ہوئے کسی بھی واضح پالیسی کو مشعل راہ نہ بنایا۔ یوں بھی ٹکٹوں کی تقسیم پر جماعت کی مقامی لیڈر شپ میں ازحد اختلافات تھے‘ جو اس مرحلے پر کھل کر سامنے آگئے۔ اس تناظر میں بچگانہ فیصلہ یہ بھی کیاگیا کہ پارٹی کے ساتھ جذباتی وابستگی رکھنے والے بعض نوجوان امیدواروں کو میدان میں اتار دیا گیا۔ جس کا جماعت کو انتخابی نتائج میں ناکامی کی صورت میں خمیازہ بھگتنا پڑا۔ اس ضمن میں لال کڑتی (طارق آباد) اور 22 نمبر چونگی کے حلقہ کی مثال پیش کی جا سکتی ہے‘ جس میں پیپلز پارٹی سے مراجعت کر کے تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کرنے والے ایک دیرینہ سیاسی کارکن بابو ادریس بھی ٹکٹ کے خواہشمند تھے‘ مگر انہیں نظرانداز کر کے ٹکٹ ایک پرجوش نوجوان خالد جدون کو دے دیا گیا۔ پیپلز پارٹی کینٹ میں بابو ادریس کا شمار جذباتی اور جوشیلے جیالے دیرینہ کارکنوں میں ہوتا تھا‘ جنہوں نے پارٹی کے برے وقتوں میں ازحد قربانیاں دیں اور قیدوبند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں‘ لیکن جو سلوک بقول کسے ان کے ساتھ پیپلز پارٹی کی لیڈر شپ نے روا رکھا وہی یہاں بھی ہوا اور وہ ٹکٹوں کی تقسیم کے بعد پارٹی کے فیصلوں کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے نظر آئے‘ بعد ازاں انہیں خالد جدون کی غیر مشروط حمایت پر آمادہ تو کر لیا گیا لیکن ان کے ساتھ وابستہ بہت سے دیرینہ سیاسی کارکن انتخابی مہم میں ان کے ہمراہ نہ تھے۔ اس ضمن میں پیپلزپارٹی کینٹ کے بعض کارکن ان سے نالاں بھی ہیں اور پیپلزپارٹی چھوڑ کر ان کے تحریک انصاف میں جانے کو ”سیاسی قلابازی“ سے بھی تعبیر کرتے ہیں۔ بعض کارکنوں کا خیال ہے کہ پیپلزپارٹی تاحال ان کے سیاسی باطن سے نہیں نکل سکی اور وہ حالیہ انتخابی جلسوں میں قائدعوام ذوالفقار علی بھٹو کو بیانگ دہل خراج بھی پیش کرتے رہے ہیں۔
راولپنڈی کی دو کنٹونمنٹس کے انتخابات یوں تو مقامی سیاست کے عمومی اور منطقی رنگ ہیں لیکن تحریک انصاف ‘ عوامی تحریک‘ پیپلزپارٹی اور جماعت اسلامی سمیت بعض مقامی سیاسی دھڑوں کے لئے آئندہ کی سیاست میں ایک لمحہ فکریہ ضرور ہے۔ تحریک انصاف نے اسلام آباد کے ڈی چوک میں دھرنے کی احتجاجی سیاست کا جو رنگ جمائے رکھا اور طویل عرصہ تک اس کی بازگشت کا سلسلہ جڑواں شہروں میں رہا‘ کم از کم راولپنڈی کنٹونمنٹس کے الیکشن کے نتائج میں اس کا کوئی مثبت پہلو سامنے نہ آ سکا۔ اگرچہ ان انتخابات میں تحریک انصاف کے تمام امیدواران نے اپنی الیکشن مہم میں دھرنے کی سیاست کے بعض آزمودہ سیاسی داﺅ پیج بھی بروئے کار لانے کی کوشش کی‘ مگر اس کے دور رس اور مثبت نتائج سامنے نہ آ سکے۔ تحریک انصاف کے لئے مقام فکر ہے کہ جڑواں شہروں کے باسیوں کو ہر لخطہ اپنے ہمراہ محسوس کرنے والوں نے الیکشن نتائج میں انہیں خود سے دور پایا۔ تاہم تحریک انصاف کے حوالے سے ایک مثبت نتیجہ یہ ضرور اخذ کیا جا سکتا ہے کہ پارٹی کارکنوں میں سیاسی ڈسپلن کی لہر پیدا ہوئی جوآگے چل کر اس تناظر میں دوررس مثبت کلچر ضرور پیدا کرے گی‘ جس کا پارٹی کو بھی فائدہ ہوگا اور مجموعی سیاسی ماحول کو بھی ۔
رہی بات جماعت اسلامی کی تو اس ضمن میں صرف یہی کہا جا سکتا ہے کہ جماعت کو قاضی حسین احمد ایسے مقبول ترین عوامی رہنما بھی صحیح معنوں میں عوامی پارٹی نہ بنا سکے ‘ جماعت کا سیاسی ذہن رکھنے والا ہر کارکن سمجھتا ہے کہ ووٹ لینے کے لئے دینی اور مذہبی عزائم کے ساتھ ساتھ عوامی پذیرائی کا سیاسی لائحہ عمل بھی درکار ہوتا ہے۔ جس میں جماعت اسلامی کا جمود توڑ کر عوام الناس کے مفادات کی سیاست کرنا از بس ضروری ہے ۔ قاضی حسین احمد کے بعد منور حسن نے جماعت کا سیاسی جمود وہیں لا کھڑا کیا جہاں وہ قاضی مرحوم سے پہلے تھا اور اب کنٹونمنٹ الیکشن کے نتائج سے ظاہر ہوتا ہے کہ جماعت کے موجودہ سربراہ بھی اس میں خاطر خواہ تبدیلی نہیں لا سکے۔ بعض دانا¶ں کے بقول جماعت اسلامی کی عوامی حیثیت اسی صورت بحال ہو سکتی ہے جب جماعت اپنے بنیادی منشور میں ترمیم کرتے ہوئے عوام الناس کو جماعتی رکنیت کا اہل بنانے کے اقدامات عمل میں لائے۔ راولپنڈی کنٹونمنٹس کے 20 انتخابی حلقوں میں سے جماعت اسلامی کا صرف ایک منتخب کونسلر متذکرہ صورتحال کی سب سے بڑی سیاسی شہادت ہے ۔ لہذاٰ جماعت کو قول و فعل کی سچی سیاسی پارٹی ہونے کے ناطے بعض امور اور معاملات پر نظرثانی کی اشد ضرورت ہے۔