• news

ہمالہ سے چشمے ابلنے لگے

یہ تو چینی صدر نے کہا کہ 1930 میں علامہ اقبال نے پیش گوئی کی تھی چین معاشی اور عالمی طاقت بنے گا۔ چینی صدر کو یہ شعر یاد ہو گا وہ اردو میں سناتے تو انگریزی بولنے والے پاکستانی حکمرانوں کو شرم آتی۔ اب گراں خواب چینی سنبھل گئے ہیں بلکہ اپنا کردار سنبھال چکے ہیں۔ بس ھمالہ سے چشمے ابلنے والے ہیں
گراں خواب چینی سنبھلنے لگے
ہمالہ کے چشمے ابلنے لگے
پاکستان کا کوئی متبادل نہیں ہے۔ ہم یہ سوچیں کہ پاکستان کا کیا حال ہے۔ ہم ہر حال میں ایک ایسا ملک ہیں جو ناقابل تسخیر ہے اور یہ بھارت اور امریکہ کو معلوم ہے۔ صدر ابامہ نے یہ بھی نریندر مودی کو کہا کہ خطے میں انتہا پسندی سے نہیں محبت اور فراست سے حالات کو ٹھیک کرو۔ جن حالات میں ہم پورے اعتماد سے زندہ ہیں دنیا کا کوئی اور ملک زندہ نہیں رہ سکتا۔ ابامہ نے کہا کہ باورچی کا بیٹا امریکہ کا صدر بن جائے، چائے بنا کے بیچنے والا بھارتی وزیراعظم بن سکتا ہے۔ میری طرف سے عرض ہے کہ پاکستان میں ایک عظیم مزدور کا بیٹا ہے اور مزدوری ایک اعلیٰ کام ہے۔ پاکستان میں کسی چیز کی کمی نہیں ہے بس ایک اچھا لیڈر چاہئے۔
اگر آغاز ہی میں چین کے ساتھ ایسے روابط ہوتے جو اس دورے میں ظاہر ہوئے ہیں تو کمال ہوتا۔ اس لمحے کو امر بنائیں اور جو منصوبے سامنے آئے ہیں۔ وہ شفاف طریقے سے جلد از جلد مکمل ہوں۔ اس کام کے لئے شہباز شریف کی مدد بھی لیں اور دوسرے صوبوں سے بھی اہل اور اہل دل لوگوں کا تعاون بھی حاصل کریں۔ چشمہ بیراج کی طرح گوادر پورٹ بھی چینیوں نے بنایا۔ اب گوادر سے کاشغر تک ایک عالمی راہداری بنائی جا رہی ہے۔ اس کا فائدہ چین کو ہو گا۔ بھارت کو اور پوری دنیا کو ہو گا۔ پاکستان کو بھی ہو گا۔ جو کچھ علامہ اقبال نے کہا وہ چینی قیادت پورا کر رہی ہے۔ پاکستانی بھی کچھ کریں اور عالم اسلام بھی کوئی بڑا کردار ادا کرے۔ یہ ہو گا تو عالم اسلام کی اہمیت اتنی بڑھے گی کہ سلامتی کونسل کا مستقل ممبر عالم اسلام کا نمائندہ ہو گا اور وہ پاکستانی ہو گا کیونکہ پاکستان مسلمانوں کا ایک لیڈر ملک ہے۔ بھٹو کی اسلامی سمٹ کانفرنس بھی اسی خیال کی مظہر تھی۔ شاہ فیصل اور بھٹو صاحب عالم اسلام کے لیڈر کے طور پر ابھر رہے تھے تو دنیاوی طاقتوں نے شاہ فیصل اور بھٹو صاحب دونوں کو مروا دیا ۔ یہ امریکہ کی کامیابی ہے کہ وہ عالم اسلام کو ذلیل و خوار کر رہا ہے۔ مگر ان دیکھی دنیائوں کی طاقت کا مالک بھی ہے اور ہر کمالے را زوال۔ ہر فرعونے راموسیٰ
روس کے بعد امریکہ کی باری آنے والی ہے اور دوسری بات تو عالم اسلام کے غلام حکام کے لئے بھی ہے کہ ’’موسیٰ‘‘ پیدا ہو گیا ہے اور حکام قتل طفلاں کی منادی دے رہے ہیں۔ بات کاشغر سے شروع ہوئی تھی۔ گوادر سے کاشغر تک تو نیل کے ساحلوں سے آگے سب سے بڑی بندرگاہ گوادر ہو گی۔
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لئے
نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کاشغر
بھٹو کے بعد جو حال بھٹو کی وراثت سیاست اور فراست کا اپنی چالاکی سے ’’صدر‘‘ زرداری نے کر دیا ہے وہ کوئی اور نہیں کر سکا۔ اب بلاول کا نام بھی بلاول زرداری ’’صدر‘‘ زرداری نے رکھا ہے۔ میری اس نوجوان سے التجا ہے کہ وہ پاکستان نہ آئے اپنی والدہ کے انجام کو ذہن میں رکھے اور نام تبدیل کر لے۔
اس میں کیا راز ہے کہ ’’صدر‘‘ زرداری بھی چین گئے تھے؟ مگر جو کوششیں نواز شریف اور شہباز شریف نے کیں ان کے لئے کچھ باتیں یہ بھی ہوتی ہیں کہ وہ ذاتی کاروبار میں بھی دلچسپی رکھتے ہیں۔ ہمیں ان باتوں کو نظرانداز کر کے پاکستان کو چینی قیادت کی رہنمائی میں آگے بڑھانے پر غور کرنا چاہئے۔ میری شریف برادران سے بھی گذارش ہے کہ ان کو اللہ نے ہر نعمت سے نوازا ہے۔ وہ پاکستان کو نوازیں۔ ’’نوازیں‘‘ سے دھیان نواز شریف کی طرف جاتا ہے۔ شریف برادران تاریخ بنائیں اور اپنا نام تاریخ میں رقم کر دیں۔ پاکستان چین کا دوست ہے اور آنے والے دنوں میں دنیا پر چین کا سکہ چلے گا۔ کھوٹے سکے اپنی صفوں سے نکال باہر کریں اور اس ملک میں اہل اور اہل دل لوگوں کو اس کام پر لگائیں۔ اللہ مہربانی کرے گا۔
یہ اتفاق بھی فائونڈری والے یاد رکھیں کہ چینی صدر کا پارلیمنٹ سے خطاب 21 اپریل یوم اقبال کو تھا۔ یہاں چینی صدر نے علامہ اقبال کو یاد رکھا۔ نواز شریف نے چینی فلاسفر کنفیوشس کو یاد کیا مگر ایک دکھ والی بات ہے کہ چینی صدر نے قومی زبان چینی میں گفتگو کی مگر ہمارے قائد ایوان اور قائد اختلافات نے انگریزی میں خطاب کیا۔ نواز شریف کی انگریزی اچھی تھی جبکہ وہ اردو میڈم ہیں مگر خورشید شاہ کو انگریزی ابھی سیکھنا چاہئے مگر اب کیا فائدہ انہوں نے جو کچھ بننا تھا بن گئے۔ وہ اسمبلی میں صدر زرداری کے قائم علی شاہ ہیں۔ انہوں نے بھٹو صاحب کا نام لیا۔ اچھا لگا۔ کیا اس سے ’’صدر‘‘ زرداری کے خفا ہونے کا خطرہ نہیں ہے۔
جو بات نواز شریف نے انگریزی میں کی ہے وہ اس سے اچھے طریقے سے اردو زبان میں کر سکتے تھے۔ وہ اردو میں بہت اچھی تقریر کرتے ہیں۔ ان میں حسں مزاح بھی ہے۔ لوگ ان کی اردو میں بات کو انجوائے بھی کرتے ہیں۔ چینی صدر کی تقریر کا انگریزی میں ترجمہ کیوں کیا گیا۔ پارلیمنٹ میں 50 فیصد لوگ انگریزی نہیں جانتے۔ جعلی ڈگریوں والوں کو انگریزی کہاں آنے لگی۔ یہ مضمون ہم نے فیل ہونے کے لئے رکھا ہوا ہے۔ قوم کی دو طبقوں میں تقسیم کرنے کی سازش بیورو کریسی نے تیار کی ہے جسے میں برا کریسی کہتا ہوں۔ چنگا نہ کریسی۔ غریبوں اور عام لوگوں کے لئے آگے بڑھنے کا کوئی چانس نہیں ہے۔ نواز شریف لکھی ہوئی تقریر پڑھ رہے تھے۔ خورشید شاہ نے بھی یہی کیا۔ یہ دیکھ کر چینی صدر بھی مسکرا دیے۔
چینی صدر خوبصورت آدمی ہیں۔ وہ مسکراتے ہوئے جہاز سے اترے۔ ان کی اہلیہ خاتون اول نے پورا لباس پہنا ہوا تھا۔ انہوں نے کسی محفل میں پاکستان کے جھنڈے کے رنگ کا لباس بھی پہنا ہوا تھا۔ محترم خاتون کے لئے شکریہ۔ اس بار چینی خاتون اول کی مہمان داری اور خاطر تواضع کے لئے مریم نواز کی ڈیوٹی لگائی گئی تھی۔ انہوں نے یہ فرض بہت خوش اسلوبی سے نبھایا۔ کئی سرکاری کام مریم نواز بہت سلیقے سے کر سکتی ہیں۔ میں ان سے نہیں ملا مگر میرے دل میں ان کے لئے عزت ہے۔ سیاسی موروثیت کی غلط فہمیوں میں اچھے دل و دماغ والے لوگوں کی مخالفت نہیں کرنا چاہئے۔ جبکہ اسمبلی اور دفتروں میں 75 فیصد سے زیادہ لوگ کسی نہ کسی موروثی صورتحال میں لتھڑے ہوئے ہیں۔ موروثیت ایک عالمی فطری معاملہ ہے۔ شرط یہ ہے کہ وارث اس منصب کا اہل ہو جو اسے مل گیا ہے۔ مجھے اپنے والد کی جائیداد سے حصہ ملے گا کسی دوسرے کے باپ سے حصہ نہیں ملے گا۔ میں پاکستانی سیاست میں موروثیت کی حمایت نہیں کرتا مگر بغیر سوچے سمجھے تنقید ٹھیک نہیں ہوتی۔
چین اور پاکستان دو ملک ہیں جن میں کوئی بھی ایک دوسرے کے خلاف بات نہیں کرتا۔ یہ بات اس لازوال دوستی کی بہت بڑی گواہی ہے۔ اب اس کے لئے کوئی عملی تصویر دنیا کے سامنے ثبوت کے طور پر پیش کرنا باقی ہے۔ چینی صدر نے پاکستان کو آئندہ کا ایشیئن ٹائیگر کہا ہے تو اب اس پر یقین بھی آ گیا ہے مگر ایک اندیشہ ہے کہ ایشیئن ٹائیگر ہم نے بننا تو خود ہے۔ نواز شریف کی مخالفت چین سے روابط بڑھانے کے لئے بھی ہو رہی ہے۔ اس حوالے سے انہوں نے خود سازشوں کا ذکر کر دیا ہے۔ اللہ ہمیں سازشی دوستوں اور سازشی دشمنوں سے بچائے جتنا والہانہ اور فقیدالمثال استقبال چینی صدر کا ہوا دنیا کے کسی ملک میں کسی مہمان حکمران کا نہیں ہوا۔ مگر سکیورٹی مسائل نہ ہوتے اور عام لوگوں کو استقبال کرنے کی اجازت ہوتی تو آدھا پاکستان اسلام آباد میں آ گیا ہوتا۔

ای پیپر-دی نیشن