’’لال مسجد آپریشن ۔۔۔ پرویز مشرف بے قصور!‘‘
پاکستان میں ہر قبیل کے دہشت گردوں کے خلاف آپریشن ’’ضرب اُلعضب‘‘ زور شور سے جاری ہے اور اب پاکستان کے معزز مہمان امامِ کعبہ ڈاکٹر الشیخ الغامدی نے اپنے ایک ٹیلی وژن انٹرویو میں فتویٰ دے دیا ہے کہ ’’طالبان اور داعش کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے اور وہ خوارج کے انداز میں قرآن و سُنت کی غلط تشریح کر رہے ہیں ‘‘۔ ہر مسلمان کو علم ہے کہ خلیفہ ء راشدین حضرت عثمان ؓ اور حضرت علیؓ کے خلاف علم بغاوت بلند کرنے والوں کو ’’خوارج‘‘ کہا جاتا ہے۔طالبان اور داعش کے عہدیداران اور کارکنان کے خلاف امامِ کعبہ کے کُفر کے اِس فتوے کی روشنی میں پاکستان کی پارلیمنٹ ، عدلیہ ، انتظامیہ اور میڈیا کو متحد ہو کر ہتھیاروں کے بَل پر مسلمانوں پر اپنی مرضی کی شریعت نافذ کرنے والوں سے نمٹنا ہو گا۔
ہماری سیاسی قیادت نے بعض مذہبی جماعتوں کے دبائو میں آ کرستمبر 2013ء میں اسلام آباد میں منعقدہ آل پارٹیز کانفرنس میںدہشت گرد طالبان کو ’’ہمارے اپنے لوگ اور ریاست پاکستان کے "Stake Holders" تسلیم کر لِیا تھا۔ 15 فروری 2014ء کو ’’طالبان کا باپ‘‘ کہلانے والے مولانا سمیع الحق کی صدارت میں 32 مذہبی جماعتوں کے قائدِین اور 200 سے زیادہ جیّد علماء کی عُلماء و مشائخ کانفرنس میں طالبان کو ’’پاکستان کے بیٹے‘‘ قرار دیا گیا تھا۔ اِس سے قبل وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان نے طالبان کو دو حصوں میں تقسیم کرکے ’’محبِ وطن طالبان‘‘ کی اصطلاح ایجاد کرکے قومی اسمبلی کے ایوان میں اپنی ذاتی رائے کومسلم لیگ ن کی حکومت کی پالیسی پر مسلُط کر دِیا تھا۔ بعد ازاں چودھری نثار علی خان اور وزیر اعظم کے معاونِ خصوصی جناب عرفان الحق صدیقی کے مشورے پر جنابِ وزیر اعظم نے ہمارے فوجیوں کے گلے کاٹ کر اُن کے سروں کو فٹ بال بنا کر کھیلنے والے دہشت گردوں سے مذاکرات کا فیصلہ کِیا لیکن طالبان کی نامعقولیت اور ان کے سہولت کاروں کی ضد کے باعث یہ مذاکرات ناکام ہو گئے تھے۔
امام کعبہ کے انٹرویو سے اُن مذہبی لیڈروں کا وہ نظریہ باطل ہو گیا ہے جنہوں نے امریکی ڈرون حملے میں ہلاک ہونے والے حکیم اللہ محسود کو ’’شہید‘‘ قرار دیا تھا اور وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان کے اس واویلے کی کوئی اہمیت نہیں رہی جنہوں نے حکیم اللہ محسود کی ہلاکت پر وزیر خارجہ کا منصب سنبھالے بغیر اعلان کر دیا تھاکہ ’’اب پاکستان کو امریکہ کے ساتھ اپنے تعلقات پر نظرثانی کرنا ہوگی‘‘ ۔ دریں اثناء مولانا سمیع الحق سے گفتگو کرتے ہوئے جناب عرفان الحق صدیقی کا یہ بیان ریکارڈ پر موجود ہے کہ ’’طالبان سے مذاکرات کے سلسلے میں مولانا سمیع الحق اور ہمارا (حکومت کا) مقصد ایک ہے۔‘‘
یہ بات بھی ریکارڈ پر موجود ہے کہ اسلام آباد کی لال مسجد کے خطیب (سرکاری ملازم) مولوی عبدالعزیز نے 6 اپریل 2007ء کو ’’امیر المومنین‘‘ کا لقب اختیار کرکے اور اپنے چھوٹے بھائی ،مسجد کے نائب خطیب (سرکاری ملازم) غازی عبدالرشید کو ’’نائب امیر المومنین‘‘ مقرر کرکے ملک بھر میں اپنی مرضی کی شریعت کے نفاذ کرتے ہوئے صدر پرویز مشرف اور مسلم لیگ ق کے وزیر اعظم شوکت عزیز کو خبردار کیا تھا کہ ’’اگر حکومت نے نفاذِ شریعت کی راہ میں رکاوٹ ڈالی تو سارے پاکستان میں خود کش حملے ہونگے۔‘‘ پھر لال مسجد سے ملحقہ مولوی عبدالعزیز کی اہلیہ اُم حسّان کی پرنسپل شِپ میں چل رہے مدرسے جامعہ حفصہ کی ڈنڈا بردار طالبات نے اسلام آباد کے بعض گھروں میں چھاپے بھی مارے۔
12 اپریل 2007ء کو پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر مسلم لیگ ق کے صدر (سابق وزیر اعظم) چودھری شجاعت حسین کا یہ بیان منظرِ عام پر آیا کہ ’’مولوی عبدالعزیز اور اُن کے بھائی غازی عبدالرشید سے میرے اور مسلم لیگ ق کی حکومت میں شامل اتحادی جماعتوں کے لیڈروں کے کئی بار مذاکرات ہوئے اور ناکام اِس وجہ سے ہُوئے کہ دونوں بھائی اپنی ضِد پر اڑے ہوئے تھے کہ صدر جنرل پرویز مشرف فوراً مُلک میں شریعت نافذ کر دیں۔‘‘ چنانچہ مجبوراً صدر جنرل پرویز مشرف کو ریاست پاکستان کو دہشت گردی سے بچانے کے لئے پاک فوج کو لال مسجد اور جامعہ حفصہ میں چُھپے دہشت گردوں کے خلاف 3 جولائی 2007ء کو "Operation Sunrise" کا حکم دینا پڑا ۔’’امیر المومنین‘‘ مولوی عبدالعزیز فرار ہو گئے اور ان کے بھائی غازی عبدالرشید اور اُن کی والدہ سمیت 103 لوگ ہلاک ہوگئے۔
20 اپریل 2013ء کو فیڈرل شریعت کورٹ کے جج ،جسٹس شہزادو شیخ کی لال مسجد آپریشن کے بارے میں تحقیقاتی رپورٹ منظرِ عام پر آئی جس میں کہا گیا تھا کہ ’’لال مسجد اور جامعہ حفصہ میں پناہ گزین عسکریت پسند بلا اشتعال فائرنگ اور خُود کُش حملوں کے لئے مکمل طور پر تربیت یافتہ تھے اور فوج اُس وقت فائرنگ کرتی تھی جب اندر سے فائر ہوتا تھا اور ہتھیاروں کے کم از کم استعمال کے نتیجے میں فوج کے 11 افسران بھی شہید ہوئے۔‘‘
مولوی عبدالعزیز کا کہا ’’سچ‘‘ ثابت ہوا۔ آپریشن ’’سن رائز‘‘ کے بعد مُلک بھر میں مسجدوں ، امام بارگاہوں ، اولیائے کرام کے مزارات اور غیر مسلموں کی عبادت گاہوں سمیت مختلف مقامات پر خود کُش حملے ہوئے جس کے نتیجے میں پاک فوج کے افسروں اور جوانوں سمیت 58 ہزار کے قریب معصوم اور بے گناہ پاکستانی شہید ہو چکے ہیں۔ 12 جولائی 2007ء کو اسلام آباد میں ایک مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے (ان دنوں) متحدہ مجلسِ عمل کے صدر (امیر جماعتِ اسلامی) قاضی حسین احمد ، سیکرٹری جنرل مولانا فضل الرحمن اور موجودہ ڈپٹی چیئرمین سینٹ مولانا عبدالغفور حیدری نے لال مسجد اور جامعہ حفصہ کے خلاف آپریشن کرنے والے پاک فوج کے افسروں / جوانوں کے بارے میں کہا تھا کہ ’’امریکی مفادات کے مطابق سرگرمِ عمل فوجیوں کو شہید نہیں کہا جا سکتا۔‘‘
سابق امیر جماعت اسلامی سیّد منور حسن ببانگ دُہل حکیم اللہ محسود کو ’’شہید‘‘ اور اُسامہ بن لادن کو ’’سید الشہداء ‘‘ قرار دے چکے ہیں۔ وہ دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کے دوران شہید ہونے والے پاک فوج کے افسروں اور جوانوں کو شہید تسلیم نہیں کرتے۔ ان کا فتویٰ ہے کہ ’’پاکستان کے عوام مسائل کا حل جمہوریت میں نہیں بلکہ جہاد و قِتال فی سبیل اللہ کے کلچر کو فروغ دینے میں ہے۔‘‘ طالبان کے کئی کمانڈر داعش میں شامل ہو چکے ہیں۔ مولوی عبدالعزیز اور اُن کی اہلیہ علی اعلان طالبان اور داعش کے نمائندگان اور سُفراء ہیں ۔ داعش کے خلاف امامِ کعبہ کا کُفر کا فتویٰ آ چکا ہے ، اب عدلیہ ، پارلیمنٹ ، انتظامیہ اور میڈیا کو فیصلہ کرنا ہوگا کہ ریاستِ پاکستان کو بچانے کیلئے آٹھ سال قبل جو آپریشن "Operation Sunrise" ہوا کیا وہ درست نہیں تھا؟ اور سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف بے قصور نہیں تھے / ہیں؟
حیرت کی بات ہے کہ طالبان کے سارے ’’سہولت کار ‘‘خاموش ہیں ۔امام کعبہ کے اس فتوے کے خلاف بات کرنے کی کسی نے بھی جُرأت نہیں کی ۔ اس وقت پاکستان کی عسکری اور فوجی قیادت دہشتگردوں کیخلاف آپریشن پر متفق ہے اور انہیں پارلیمنٹ اور عوام کی حمایت بھی حاصل ہے۔ جو لوگ لال مسجد اور جامعہ حفصہ کے خلاف آپریشن میں مجرم ٹھہرا کرجنرل (ر)پرویز مشرف کو تختہ دار پر لٹکانے کا خواب دیکھ رہے ہیں اُن کی خدمت میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ ۔۔۔۔
’’آپ ہی اپنی ادائوں پہ ذرا غور کریں !
ہم اگر عرض کریں گے تو شکایت ہوگی !‘‘