کراچی کو الگ صوبہ بنانے کا مطالبہ نائن زیرو پر چھاپے کا ردعمل ہے: سراج الحق
لاہور (سپیشل رپورٹر) جماعت اسلامی کے امیر سینیٹر سراج الحق نے کہا ہے کہ ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کی طرف سے کراچی کو الگ صوبہ بنانے اور سندھ ون اور سندھ ٹو کا نعرہ اسٹیبلشمنٹ اور حکومت کی طرف سے نائن زیرو پر رینجرز کے چھاپے اور مطلوب مجرموں کو پکڑنے کا ردعمل ہے ۔ لسانی، مسلکی اور قومیت کی بنیاد پر پاکستان کی جغرافیائی تقسیم سے نئے فتنے کھڑے ہوں گے۔ انتظامی بنیادوں پر آئینی طریق کار کے مطابق نئے صوبے بنانے میں کوئی حرج نہیں مگر اس کے لیے ضروری ہے کہ اس پر مکمل قومی اتفاق رائے ہو۔ بات صرف سندھ کی تقسیم تک محدود نہیں رہے گی بلکہ کئی یونٹ اٹھ کھڑے ہوں گے۔ سرائیکی، ہزارہ، پشتون بیلٹ سمیت کئی علاقوں کے عوام پہلے سے الگ صوبوں کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ ہم عوام کو ان کے بنیادی حقوق دلانے کی جدوجہد کر رہے ہیں عوام بھی اپنے پائوں پر کلہاڑی مارنے اور سانپوں کو دودھ پلاکر اژدھے بنانے کے رویہ کو ترک کر کے ایسے لوگوں کا انتخاب کریں جو ان کے حقوق کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے لاہور میں جماعت اسلامی پاکستان کے مرکزی شعبہ جات کے ناظمین سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے کہاکہ ملک میں انتظامی بنیادوں پر نئے صوبے بنانے میں کوئی قباحت نہیں مگر جب تک قومی اتفاق رائے نہ ہو، اس مسئلے کو اٹھانا ملکی وحدت اور یکجہتی کے لیے خطرناک ہوگا۔ ملکی اقتدار پر قابض ٹولے نے تمام اداروں کو یرغمال بنا رکھا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ، عدلیہ، فوج اور اعلیٰ ترین عہدوں پر انہی وڈیروں، جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کے بیٹے بھتیجے اور بھانجے براجمان ہیں، قوم نے جن لوگوں سے آزادی اور نجات کے لیے ایک تحریک چلائی تھی، ابھی تک وہی ٹولہ مسلط ہے۔ انہوں نے کہاکہ ملک میں ظالم اور مظلوم کی جنگ ہے۔ ظالم متحد اور مظلوم منتشر ہیں جس کی وجہ سے انہیں مسلسل مظالم کا سامنا ہے۔ جب تک عوام اہل اور دیانتدار قیادت کا انتخاب نہیں کریں گے انہیں تعلیم، صحت اور روزگار کے غصب شدہ حقوق حاصل نہیں ہوںگے۔ انہوں نے کہاکہ ہم چاہتے ہیں کہ وفاقی اور چاروں صوبائی حکومتیں اپنی مدت پوری کریں تاکہ انکا کیا کرایا سامنے آئے اور انتخابات کو عوام حکمرانوں کے لیے یوم حساب بنادیں۔
لاہور (اشرف ممتاز / نیشن رپورٹ) جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے کہا ہے 2015ء عام انتخابات کا سال نظر نہیں آتا عمران خان نے شاید بلدیاتی الیکشن جو چند ماہ کے اندر ہونے ہیں ان کے حوالے سے کہا ہے۔ ’’دی نیشن‘‘ کو دیئے گئے انٹرویو میں انہوں نے کہا ہم چاہتے ہیں کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں اپنی مدت پوری کریں، اس سوال پر کہ کئی برسوں بعد بھی جماعت اسلامی قابل ذکر سیاسی قوت بن کر نہیں ابھر سکی پر سراج الحق نے کہا کہ جماعت اسلامی ایک نظریاتی جماعت ہے جس کی کارکردگی کو پارلیمنٹ میں حاصل کردہ سیٹوں کے تناسب میں نہیں دیکھنا چاہئے ہم لوگوں کی اصلاح اور ان کو ان کے خالق و مالک کی طرف لانے کی کوششیں کر رہے ہیں ہم نے عوامی فلاح کے کئی منصوبے شروع کر رکھے ہیں تعلیمی ادارے بھی قائم کئے ہیں۔ الیکشن میں حصہ لینا تو ہماری حکمت عملی کا ایک حصہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ سیاست پر جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کا قبضہ ہے۔ جماعت اسلامی دو نمبر سرمایہ داروں کو ٹکٹ نہیں دیتی، اسی وجہ سے ہمارے امیدوار الیکشن ہار جاتے ہیں مگر ہم نے نظریاتی محاذ پر کامیابی حاصل کی ہے۔ سراج الحق نے کہا کہ افسوس کی بات ہے کہ پاکستانی عوام انتخابات میں میرٹ نہیں اپنے معاشی مسائل کو ذہنوں میں رکھ کر ووٹ کاسٹ کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم معاشرے کے پسے ہوئے طبقات کو آگے لانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ سیاسی جماعتوں کو مذہبی اور سیاسی درجوں میں تقسیم کرنے کے حق میں نہیں، پاکستان کا آئین اسلامی ہے جو جماعتیں اسے تسلیم کرتی ہیں تو انہیں سیکولر جماعتیں نہیں کہا جا سکتا۔ سیاسی جماعتوں کو دائیں یا بائیں بازو کی بجائے غلط اور صحیح کے درجوں میں شمار کرنا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ ہماری لڑائی سٹیٹس کو کے حامیوں سے ہے۔ سرج الحق نے کہا کہ جماعت اسلامی واحد قومی جماعت ہے جس کو کراچی سے چترال تک عوامی حمایت میسر ہے دیگر جماعتیں جو خود کو مذہبی جماعتیں کہتی ہیں حقیقت میں فرقہ وارانہ سوچ کی حامل جماعتیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ دہشت گردی مقامی سطح پر پیدا ہونیوالا مسئلہ نہیں یہ باہر سے امپورٹ کی گئی۔ ملک میں ہونیوالی تمام دہشت گردانہ سرگرمیوں کے ذمہ دار جنرل ’’ر‘‘ پرویز مشرف ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جنرل ضیاء کی افغان پالیسی نے ملک میں دہشت گردی کو فروغ نہیں دیا، سوویت یونین کو شکست دینا ان کی بہت بڑی کامیابی تھی۔