سستی بجلی، پانی کے بڑے ذخیرے نظرانداز: 2020ء تک قحط والے ممالک میں شمار ہوگا
لاہور (ندیم بسرا) پانی کے بڑے ذخیروں کے منصوبے نہ بنانے سے پاکستان 2020ء تک قحط زدہ ممالک میں چلا جائیگا۔ 4 سے 5 دہائیاں قبل بنائے گئے تربیلا، منگلا ڈیم سے آج بھی 2 روپے 62 پیسے فی یونٹ کے حساب سے بجلی مل رہی ہے جبکہ حکومت ڈیزل سے 23 روپے 43 پیسے اور فرنس آئل سے 17 روپے 58 پیسے فی یونٹ بجلی بنانے میں مصروف ہے۔ اس حوالے سے بتایا گیا ہے پاکستان میں تقریباً 38 سال قبل آخری منصوبہ تربیلا ڈیم بنایا گیا۔ قیام پاکستان کے وقت فی کس پانی کی دستیابی 5500 کیوبک میٹر سالانہ تھی، ہر برس 21 ملین ایکڑ فٹ پانی سمندر کی نذر کرنے کے باعث آج پانی کی فی کس دستیابی 1 ہزار کیوبک میٹر سالانہ رہ گئی ہے جبکہ قحط زدہ ممالک میں پانی کی دستیابی فی کس 8 سو کیوبک میٹر ہوتی ہے۔ جب تربیلا، منگلا ڈیم بنے تھے پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت 13 فیصد تھی جو کم ہوکر 10 فیصد رہ گئی ہے حالانکہ دنیا بھر میں اوسطاً 40 فیصد ہوتی ہے۔ ہم سالانہ 21 ملین ایکڑ فٹ پانی سمندر کی نذر کردیتے ہیں۔ وفاقی وزیر پانی و بجلی خواجہ آصف کا کہنا تھا آئندہ کچھ برسوں میں شہری لوڈشیڈنگ کوبھول جائیں گے کیونکہ پانی کا بحران لوڈشیڈنگ سے بڑھ جائیگا۔ دیکھا جائے تو پانی سے سستی ترین 2 روپے 62 پیسے فی یونٹ کے حساب سے تقریباً 7 ہزار میگاواٹ بجلی تیار کی جارہی ہے جبکہ فرنس آئل سے 9 ہزار 83 میگاواٹ بجلی 17 روپے 58 پیسے فی یونٹ، ونڈ سے 106 میگاواٹ بجلی 11 روپے 62 پیسے تقریباً 787 میگاواٹ نیوکلیئر سے بجلی 5 روپے 98 پیسے، گیس سے 7 روپے 43 پیسے، کوئلے سے 12 روپے 90 پیسے، گنے کے پھوک سے 12 روپے 98 پیسے فی یونٹ بجلی تیار کی جارہی ہے۔ بتایا گیا ہے حکومت کی طرف سے وزارت پانی و بجلی کو ہائیڈل کے منصوبے لگانے کی کوئی ہدایت تاحال نہیں کی گئی۔ حکومت کی ان پالیسیوں کی وجہ سے لوڈشیڈنگ کا عذاب اگلے کئی برسوں تک جھیلنا پڑیگا کیونکہ 1980ء کے بعد کالاباغ ڈیم سیاست کی نذر ہوا۔ 2008ء میں دیامیر بھاشا ڈیم شروع کیا مگر اس پر تاحال فنڈنگ نہیں ہوسکی۔ حکومت کی طرف سے کسی بڑے منصوبے خصوصاً پانی کے منصوبے پر کام کیا جاتا ہے تو اس کو بننے میں 7 سے 9 سال تک لگ جائیں گے۔