بغاوت کا مقدمہ درج ہونے پر حکومت برطانیہ سے الطاف حسین کی حوالگی کا مطالبہ کر سکتی ہے
لاہور(ایف ایچ شہزاد سے) آئینی و قانونی تشریح کے مطابق ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کی گزشتہ رات کی تقریر کے بعض حصوں کو ریاست کے خلاف بغاوت، عوام کو ریاست کے خلاف اکسانے، ریاستی اداروں کی ساکھ مجروح کرنے اور عوام میں خوف و ہراس پھیلانے سے تعبیر کیا جا رہا ہے۔ ایس ایس پی رائو انوار کی پریس کانفرنس کے ردعمل میں کی گئی تقریر کے بعض حصوں کی بنیاد پر الطاف حسین کے خلاف دستور پاکستان، تعزیرات پاکستان، آرمی ایکٹ، انسداد دہشتگردی ایکٹ، تحفظ پاکستان پروٹیکشن ایکٹ اور ہائی ٹریژن ایکٹ کی13 شقوں کے تحت مقدمہ درج ہو سکتا ہے۔ ریاست کے خلاف بغاوت کا مقدمہ درج ہونے کی صورت میں ملزمان کی حوالگی کا معاہدہ نہ ہونے کے باوجود بین الاقوامی قانون کے تحت پاکستان اس بات کا مطالبہ کر سکتا ہے کہ برطانیہ الطاف حسین کو پاکستان کے حوالے کرے۔ اعلی سطح پر الطاف حسین کے خلاف قانونی کارروائی کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔ ذرائع کے مطابق دستور پاکستان کا آرٹیکل 2ہر شہری کو ریاست کے ساتھ وفاداری کا پابند بناتا ہے۔ اسی بنیاد پر الطاف حسین کی طرف سے عوام کو اسلحہ اور کمانڈو ٹریننگ کی تربیت کی ترغیب دینا اور یہ کہنا کہ ہم پر بار بار الزام کے بعد ’’را‘‘ والو آپ ہی ہمارا ایک بار کھل کر ساتھ دے دو تو پھر پتا چلے کہ ’’را‘‘ کا ایجنٹ کیا ہوتا ہے، الطاف کے خلاف عوام کو ریاست کے خلاف اکسانے کے مقدمے کی بنیاد بن سکتی ہیں۔ جس کے تحت تعزیرات پاکستان کے سیکشن 124اے،120اور 121 اور تحفظ پاکستان پروٹیکشن ایکٹ کے تحت مقدمہ درج ہو سکتا ہے۔ فوج کی صفوں میں مجرم ہونے کی بات پر آرمی ایکٹ کی4 سے زائد شقوں اور اشتعال انگیز تقریروں کے ذریعے عوام میں ہراس پھیلانے پر انسداد دہشتگردی ایکٹ کے سیکشن7 کا بھی اضافہ ہو سکتا ہے۔ فوج کے ادارے کو تنقید کا نشانہ بنانے پر دستور پاکستان کے تحت کسی بھی عوامی عہدے کیلئے نا اہلی ہو سکتی ہے۔ اعلی قانونی ذرائع نے بتایا کہ الطاف حسین کے خلاف ممکنہ مقدمے میں حکومت سمیت ریاستی ادارے کے مدعی بننے پر غور ہو رہا ہے۔